کالم

قیدیوں کی فلاح و بہبود کےلئے اقدامات

riaz chu

پاکستان میں جیل کی الگ ہی ایک سلطنت ہے جس میں جیلر جیسا بااختیار شخص ایک مطلق العنان بادشاہ والے اختیارات اور طاقت رکھتا ہے۔گنجائش سے زائد قیدی ہونے کی وجہ سے نہ صرف قیدیوں کو بلکہ عملہ کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے سنٹرل جیل کوٹ لکھپت کے دورے میں مرد و خواتین قیدیوں کی بیرکس کا معائنہ کیا،قیدیوں کے مسائل پوچھے اور جیل عملے کے سلوک کے بارے دریافت کیا۔انہوں نے 2 گھنٹے تک مرد و خواتین قیدیوں کے مسائل سنے اور جیل میں فراہم کردہ سہولتوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔صورتحال یہ تھی کہ کوٹ لکھپت جیل میں ایک چارپائی پر 3 خواتین قیدی موجود تھیں جبکہ سزائیں پوری ہونے کے باوجود بعض قیدی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بعض قیدیوں کی اپیلیں 10،10 سال تک نہیں لگیں۔ والد کے انتقال کے باوجود خاتون قیدی کو پیرول پر رہائی نہ مل سکی۔اس موقع پر نگران وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ قیدی بھی انسان ہیں، انہیں بنیادی سہولتوں ملنی چاہئیں ۔ سزائیں پوری کرنےوالے قیدیوں کو رہا کرانے کےلئے اقدامات کریں گے۔ایک قیدی کے ئے ایک چارپائی ہونی چاہیئے۔3 خواتین قیدیوں کےلئے ایک چارپائی ظلم ہے۔ جس قیدی خاتون کے والد انتقال کر گئے ہیں کو پیرول پر رہاکرنے کا فوری انتظام کیا جائے۔ سزائیں پوری کرنے کے باوجود جیل میں بند قیدیوں کی رہائی کےلئے عدلیہ سے بات کریں گے۔ جناب محسن نقوی نے جیل کے کچن کا معائنہ کیا اور قیدیوں کے کھانے کی کوالٹی بھی چیک کی۔ جیل ہسپتال کے دورے میں قیدیوں کےلئے میڈیکل کی سہولتوں کاجائزہ لیا اور مریضوں سے علاج معالجے کی سہولتوں کے بارے استفسار کیا ۔ یہاں پر انہوں نے ہدایت کی کہ گردے و جگر کے امراض میں مبتلا قیدی مریضوں کا علاج پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ سے کرایا جائے اور اس ضمن میں پی کے ایل آئی کا فوکل پرسن مقرر کیا جائے۔ سیکرٹری صحت گردے و جگر کے امراض میں مبتلا مریضوں کو پی کے ایل آئی ریفر کرنے کیلئے انتظام کریں۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے جیلوں میں قیدیوں کی رہائی، صحت اور تعلیم کے متعلق جو اقدامات کئے ہیں وہ انتہائی احسن عمل ہے۔ اس سے قیدیوں کی فراہم کی جانے والی سہولیات میں اضافہ ہوگا۔ جیلوں میں سزا کی بجائے اصلاحی پروگرام ہونا چاہیے تاکہ جرائم پیشہ افرادیہاں سے اچھے اور ذمہ دار انسان بن کر باہر نکلیں۔ ہمارے ہاں جیلوںکے مسائل کی اصل وجہ گنجائش سے زیادہ تعداد ہے۔ لاہور سمیت پنجاب بھر کے دیگر اضلاع کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے ۔ پنجاب میں42جیلیں ہیں، جن میں راولپنڈی‘ ملتان‘ بہاولپور‘ ڈیڑہ غازی خان‘ فیصل آباد‘ لاہور ‘ گوجرانوالہ‘ میانوالی اور ساہیوال وغیرہ میں سینٹرل جیلیں بھی ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع کی جیلوں میں 36 ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ جیلوں میں 53ہزار قیدی بند ہیں، پنجاب کی جیلوں میں 45 فیصد زائد قیدی بند ہیں۔لاہور کی دونوں بڑی جیلوں میں بھی گنجائش سے زائد قیدی بند ہیں، کوٹ لکھپت جیل میں 2 ہزار360 قیدیوں کی گنجائش ہے، کوٹ لکھپت جیل میں 9 سو زائد قیدی بند ہیں، کیمپ جیل لاہور میں 1 ہزار 425 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ کیمپ جیل میں اس وقت 4ہزار 2 سو 70 قیدی بند ہیں، ریکارڈ کیمپ جیل میں 28 سو زائد قیدی جیل میں بند ہیں۔صوبے کے دیگر اضلاع کی جیلوں کی حالت زار بھی مختلف نہیں ہے، اڈیالہ جیل راولپنڈی، سینٹرل جیل گوجرانوالہ ،فیصل آباد ،شیخوپورہ سمیت دیگر جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی بند ہیں۔جیل کے قیدی تعلیم حاصل کرنے کیلئے جو وقت اور سہولیات جیل انتظامیہ سے حاصل کرتے ہیں اسے تعلیمی معافی کہا جاتا ہے۔ جیلوں میں قیدی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔پنجاب کی جیلوں میں قرآن پاک اور نصابی تعلیم سمیت ٹیچر کی آسان رسائی کو یقینی بنایا گیا ہے۔جیلوں میں منشیات کے عادی افراد تک منشیات پہنچنے کا معاملہ بہت زیادہ سنگین ہوتا ہے‘اگر کوئی منشیات کا عادی شخص جیل میں سزا بھگت رہا ہے‘اس کے اہلخانہ چاہتے ہیں کہ وہ جیل میں رہ کر منشیات کی بری لت سے چھٹکارہ حاصل کرے لیکن دوسری طرف جیل میں اسے منشیات میسر آجائے تویہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب نے اس سنگین نوعیت کے مسئلے کے سدباب کیلئے پنجاب کی تمام جیلوں کے کیمروں کو آن لائن سسٹم کے ساتھ منسلک کردیا ہے‘جس کی وہ روزانہ خود بھی مانیٹرنگ کرتے ہیں جبکہ چند دیانتدار اہلکاروں اور آفیسرز کی ڈیوٹی آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کے آفس میں مختص کردی گئی ہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اس ضمن میں مانیٹرنگ کریں اور جہاں کہیں سے بھی کوتاہی سامنے آئے‘ذمہ دار کوئی بھی ہو، اسے کسی طور پر معاف نہیں کیا جائیگا۔
جیلوں میں نصابی تعلیم کے ساتھ ٹیکنیکل اور مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اقلیتی قیدیوں کی مذہبی تعلیم کےلئے بھی پنجاب حکومت کو قانون سازی کی سفارش کی گئی ہے۔ قانون بنتے ہی دوسرے مذاہب کی تعلیم بھی شروع کر دی جائے گی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین سال میں مختلف مضامین میں کل 41 سو قیدی مختلف ڈگریاں لے چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے