نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے سندر روڈ رائے ونڈ میں بنائے گئے شہر خموشاں کے دورہ تجہیز و تدفین کیلئے فراہم کی جانے والی سہولتو ں کا جائزہ لیتے ہوئے اعلان کیا کہ ماڈل قبرستان میں 12ہزار سے زائد قبروں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ماڈل قبرستانوں میں تجہیز و تدفین کی فیس 10ہزار سے کم کرکے 3500کر دی گئی ہے۔ شہری ماڈل قبرستان میں ایمبولینس سروس حاصل کرنے کےلئے 1190 پر را بطہ کر سکتے ہیں۔سندر روڈ ، رائے ونڈ پر 127کنال اراضی پر ماڈل قبرستان بنایا گیا ہے۔ ماڈل قبرستان میں چاردیواری، جناز ہ گاہ اور وضو خانے کے ساتھ ایمبولینس بھی مہیا کی گئی ہے۔ ڈی جی خان ، فیصل آباد،شیخوپورہ، رحیم یار خان اور ساہیوال میں بھی ماڈل قبرستان تعمیر کیے جا رہے ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے شہر خموشاں کے مختلف شعبوں انتظار گاہوضوخانہ،جنازگاہ اور ایمبولینس کا معائنہ کے بعد کہاکہ شہر خموشاں میں تجہیز و تدفین کیلئے منظم انداز میں سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ سندر روڈ رائے ونڈ کی طرز پر دیگر شہروں میں بھی شہر خموشاں بنائے جائیں گے۔جدید قبرستانوں کا قیام آبادی بڑھنے کے ساتھ وقت کا تقاضا ہے۔ شہر خموشاں میں جدید قبرستان کے حوالے سے تمام تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔حکومت پنجاب نے لاہور میں شہر خاموشاں کے نام سے ایک جدید قبرستان بنانے کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے کیونکہ زندوں کے ساتھ ساتھ مردوں کی آخری آرام گاہوں کا قیام بھی ہمارا فرض ہے۔ اس منصوبے کے تحت لاہور میں ایک جدید ہمہ قسم کی سہولتوں سے آراستہ وسیع عریض قبرستان کاہنہ میں قائم کیا جا رہا ہے جہاں عارضی طور پر میت کو محفوظ رکھنے کے لئے سرد خانے، مردے کو غسل دینے سے لے کر کفن دفن و نماز جنازہ سمیت ہر قسم کی سہولت مکمل طور پر دستیاب ہو گی جدید طریقے سے یورپی طرز سے ایک ہی قطار میں مناسب مناسب فاصلوں پر قبریں بنائی جائیں گی تاکہ اپنے پیاروں کی قبروں پر آنے والے لواحقین کو کسی بھی تکلیف کا سامنا نہ ہو اور قبروں کی بے حرمتی بھی نہ ہو ہر قبر کا نمبر ہو گا۔ آن لائن بھی لواحقین اپنے پیاروں کی آخری آرامگاہوں کو دیکھ سکیں گے۔ جس کا رجسٹر اور کمپیوٹرائزڈ اندراج قبرستان سے ملحقہ دفتر میں ہو گا جہاں کا عملہ قبرستان آنے والوں کی رہنمائی کے ہمہ وقت دستیاب ہو گا۔ اس طرح قبریں کھودنے والے گورکن اور جدید مشینری بھی موقع پر دستیاب ملیں گے۔ محسن نقوی کی ہدایت پرصوبے کے کاشتکاروں کوسہولتیں فراہم کرنے کیلئے خصوصی پیکیج تیارکیا جارہا ہے ۔چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ،سیکرٹریز زراعت ، لائیوسٹاک،آبپاشی،خزانہ اور پنجاب بینک کے حکام پر مشتمل ٹیم پیکیج کیلئے سفارشات تیار کرے گی۔ماڈل زرعی مارکیٹ میں پیسٹی سائیڈز، زرعی آلات،کھاد اوربیچ میسر ہوں گے۔ محسن نقوی کی خصوصی ہدایت پرپنجاب میں 10سال بعد 46 لاکھ ایکڑسے زائد رقبہ پر کپاس کی ریکارڈ کاشت کی گئی ہے۔ زیادہ کپاس اگاو¿ مہم 2023کے حوالے سے تمام اضلاع کےلئے کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے، اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ زراعت تمام وسائل بروئے کارلا رہے ہیں۔ کسانوں کےلئے معیاری بیج اور ادویات کی سرکاری نرخوں پر دستیابی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے کپاس کی امدادی قیمت 8500 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔کپاس کی زیادہ پیداوار حاصل کرنےوالے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے انعامات بھی دیئے جائیں گے۔ کپاس کی فصل کاشتکار وں کےلئے نہ صرف منافع بخش بلکہ کثیر آبادی کو روزگار بھی فراہم کرتی ہے۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اسکی فی ایکڑ پیداوار کے ساتھ ساتھ اسکی مجموعی پیداوار میں اضافہ دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ کاشتکار اپنی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ نے زرعی ماہرین پر زور دیا کہ موسمی حالات کے موافق کپاس کے بیج کی نئی اقسام متعارف کرائی جائیں تاکہ کپاس کی فصل کو موسمی حالات کے برے اثرات اور حشرات الارض کے حملوں سے محفوط بنایا جا سکے ۔کپاس کی فصل صوبے اور کاشتکار کےلئے معاشی گیم چینجر ثابت ہو گی۔ حکومت نے صوبہ بھر میں جعلی زرعی ادویات کے انسداد کےلئے بھر پور کریک ڈاو¿ن کررہی ہے ۔ اس ضمن میں کسانوں کو خالص اور معیاری ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کےلئے سنٹرز اور سٹالز قائم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیاہے۔ جعلی زرعی ادویات فروحت کرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتی جائے گی۔ گزشتہ تین سال کے دوران بھارت میں لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے ایکسپورٹ کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوا تو ان کے بیرون ملک خریداروں نے پاکستان کی طرف رجوع کیا اور ان کو زیادہ آرڈرز ملے۔ان میں زیادہ تر ہوم ٹیکسٹائل، ڈینم اور اپیرل کی مصنوعات کے آرڈرز تھے، جن میں وہ خریدار بھی تھے جو پہلے بھارت سے یہ مصنوعات خرید رہے تھے ۔ پاکستان کو ملنے والے زیادہ ایکسپورٹ آرڈرز کی وجہ سے موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں ملک کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ ٹیکسٹائل شعبے کی مصنوعات کی برآمد میں گزشتہ مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے مقابلے میں چار فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔یہ شعبہ اس وقت اپنی پوری پیداواری استعداد پر کام کر رہا ہے جو ملک کی برآمدات کے شعبے میں اضافے کے ساتھ روزگار کی فراہمی کےلئے بھی مثبت پیش رفت ہے۔