ملکی سیاست کا حال یہ ہے الیکشن پانچ سال کے لئے ہوئے مگر ممبران اسمبلی خود ہی اقتدار سے باہر ہو جانے پراسمبلی سے باہرچلے جاتے ہیں اوروقت سے پہلے اسمبلیاں توڑ دیتے ہیں اور پھرالیکشن کرانے کی رٹ لگاتے ہیں ۔ اسمبلی کو پہلے بے وقیر کرتے ہیں پھر خود بھی بے توقیر ہوجاتے ہیں ۔جب سمجھ آتی ہے کہ غیر جمہوری عمل سے اسمبلیاں چھوڑنے کا فیصلہ غلط تھا توعدالتوں کا رخ کرتے ہیں کہ ہم واپس آنا چائتے ہیں۔ ملکی خزانہ خالی ہے بھیگ مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں اور زور وقت سے پہلے الیکشن کرانے پرہے۔جھوٹے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ بتاتے نہیں یہاں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے اورمیں بھی سلیکشن سے اقتدار میں آیا تھا اور اب گیا ہوں۔الیکشن سے قبل ہی کہہ رہے ہیں اگر الیکشن ان کے زیراسایہ ہوئے تو شفاف نہیں ہونگے ۔جیت گئے تو کیا کہنا ہار گئے تو میں نہ مانو کی رٹ ہو گی۔نقصان کروڑوں کا نہیں اربوں کا ہو گا ۔ملکی انتشار الگ پھیلے گا ۔ ملک میں دہشت گردی چور بازاری رشوت خوری کا بازار ہمیشہ گرم رہا ہے ۔مہنگائی نے غریب کا جینا محال کر رکھا ہے ۔ بتایا جاتا ہے۔ دکھایا جاتا ہے کہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والا آئین کے مطابق الیکشن جیت کر آتا ہے ۔مگرکبھی کبھی وہ بھی اس کرسی پر آبیٹھتے ہیں جن کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے ۔مگر کہا جاتا ہے کہ سیاست دانوںکی نا کامی کی صورت میں مجبوری کی حالت میں اقتدار کی کرسی پر آئین کی کتاب بند کر کے آنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا لائے جا تے ہیں ۔کہا جاتا ہے جو قرض دیتے ہیں وہی ملکی قیادت بھی فراہم کرتے ہیں ۔ سیاسی لوگ جو اقتدار میں آتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ سیاسی ہی ہوں یا اچھے کردار اخلاق اور کرپشن فری ہوں جس کو وہ اپنے لئے مناسب سمجھتے ہیں وہ اسے اس کرسی پر بٹھا تے ہیں ۔ ملک کو چلانے کےلئے آئی ایم ایف سے لون لینا پڑتاہے ۔یہ ادارہ قرض دینے سے پہلے اپنی شرائط منواتا ہے پھر اپنی مرضی سے قرض دیتا ہے ۔قوم کو سمجھا دیا گیا اگر قرض نہیں ملے گا تو ملک کا نظام نہیں چلے گا ۔ لہذا قرض لینا ضروری ہے ۔لگتا یہی ہے اقتدار کی کرسی پر جو بھی بیٹھتا ا ہے وہ ان کے ایجنڈے پرعمل کرنے آتا ہے ۔ یہی سوچ کر حکومت کرتا ہے کہ مجھے جب وہ چائیے گے گھر بھیج دیں گے ۔ قرض لے کر ملک سنوارنا میرا کام نہیں ۔بس میری انیاں جانیاں دیکھتے رہو ۔ ایک مذہبی جماعت کے لیڈر اکثر کہا کرتے تھے اگر ہماری جماعت اقتدار میں آئی تو ہم قرض واپس نہیں کریںگے ۔ اﷲنے انہیں اتنی زندگی نہ دی کہ وہ یہ کر کے دکھاسکتے۔ قرض دینے والے ادارے کا کام لگتا یہی ہے غریب عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکالنا ہے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو عوام سے بد دعائیں گالیاں دلوانا ہے ۔ یہ بد دعائیں قرض دینے والوں کو تو لگتی نہیں ہمارے حکمرانوں کو ضرور لگتی ہیں ۔جو وقت سے پہلے گھر چلے جاتے ہیں ۔ شائد یہ بد دعاﺅں کا نتیجہ ہے۔ ایک صاحب اپنے حال کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ قرض لیتے غریبوں میں تقسیم کر تے اور قرض سے جدید مشنیوں سے کاشت کاری کرتے ۔یہ سلسلہ چلتا رہا ۔پھر اسے یوں لگا جیسے اس دنیا سے جانے کا وقت آ چکا ہو۔ گھر پر ہی لیٹے رہتا ۔ جن میں رقم تقسیم کیا کرتے تھے وہ آ کر بیٹھ جاتے ۔صحت یابی کی دعائیں کرتے اورجھنوں نے ان کو قرض دے رکھا تھا وہ بھی آ کر بیٹھ جاتے ۔ صحت دیکھ کرپریشان رہتے ۔یہ صاحب انہیں کہتے فکر نہ کرو اﷲ کے فرشتے یہ رقم تمہیں لٹا دیں گے۔ یہ باتیں کر رہا تھا کہ باہر سے ایک حلوہ فروش کی آواز آئی۔اس نے اپنے خادم کو کہا جاﺅ کچھ دے کر اس کا سارا حلوہ لا کر ان قرض دینے والوں کو کھلادو تاکہ ان کی پریشانی کم ہو ۔ یہ ہمارے مہمان ہیں ۔خادم نے کچھ رقم دے کر یہ حلوہ قرض دینے والوں کو کھلا دیا ۔بچے نے اس حلوہ کی باقی رقم مانگی تو کہا میرے پاس تجھے دینے کو کچھ نہیں ۔َیہ کہہ کر کمبل میں منہ کر لیا ۔یہ سن کر بچے نے چیخنا شروع کر دیا ۔ادھر قرض خواہوں نے بھی چلانا شروع کر دیا۔کہا تم مر رہے ہو ۔قرض واپس نہیں کر رہے ، شرم نہیں آئی تمہیں۔تم خداکو کیا منہ دکھاﺅ گے۔ان سب کو اس بچے پر ترس آیا کہا چلو ہم سب مل کر تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے اس غریب بچے کو دے دیتے ہیں ۔یہ سن کراس نے کمبل سے منہ نکالا کہا خبر دار ایسا کسی نے کیا تو۔اپنے خادم سے رقم لانے کو کہا۔اس نے بتایا میں آپ سب کی باتیں سن رہا تھا ۔سب کو میں معاف کرتا ہوں ۔ میری خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ خدا اس بچے کی دعا سن لے ۔یہ سارا اس بچے کی گریہ زاری سے ممکن ہواہے کہ اس بچے کو بھی رقم مل رہی ہے اور آپ کو بھی ۔کہا جب تک آسمان روتا نہیں اس وقت تک چمن مسکراتا نہیں ۔ اگر قرض سے کچھ بنائیں گے نہیں تو قرض واپس نہیں کرپائیں گے۔قرض واپس نہیں کرتے تو ملک ڈیفالٹ قرار پاتا ہے ۔ ایسی ہی صورت حال کسی زمانے میں ایک ملک کی تھی ۔ اس ملک نے اپنے سے بڑی طاقت کو شکست دی تھی ۔یہ ملک جب ڈیفالت کے قریب آیا تو عوام ہر چیز سے لاتعلق ہو گئے۔اس بات سے بھی عوام کو دلچسپی نہ رہی کہ جنگ کے میدانوںمیں ہم جھنڈے گاڑ تھے۔ حکمرانوں کو تعجب ہوا کہ ہم نے دنیا کی بڑی طاقت کو شکست دی ہے اور عوام کہہ رہی ہے کہ ہمیں روٹی چائیے اور کچھ نہیں ۔ کہا یہ عجیب لوگ ہیں ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے خرچے کم کرنے کا فیصلہ کیا ۔بڑا فیصلہ یہ کیا کہ شاہی اصطبل میں کھڑے گھوڑوں کی تعداد آدھی کر دی ۔اس فیصلے پر عوام نے کہا اتنا ہی کافی نہیں گھوڑوں کے گدھوں کی تعداد بھی کم کر یں ۔ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہمیں بھی ہے ۔اب ہمیں بھیسچے اور مشکل فیصلے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔یہ کچھ کرنا ہو گا ۔پروٹوکول ختم کریں ۔ سرکاری افسران کی مراحات بند کریں ۔ جو افسر ریٹارمنٹ کے بعد ملک چھوڑ کر باہر چلے جاتے ہیں ان کی ہر قسم کی مراحات بند کر دی جائیں ۔ گھوڑوں کے ساتھ گدھوں کی تعداد بھی کم کریں۔ سرکاری محکموں کی تعداد کم کریں ۔ غیر ملکی مہمانوں کو فاسٹ فورڈ کھلائیں ۔خود سادگی اپنائیں ۔اپنے ملک میں گاڑیاں ، کمپوٹر، فون بنائیں۔ان کی امپورٹ بند کریں ۔ فیکٹریاں کارخانے لگائیں ۔ ملک کو زرعی ملک بنائیں۔ اس سے قرضوں سے نجات ملے گی اور ملک خوشحال ہوگا ۔مگر کیا کیا جائے جن کے پاس اختیار ہوتے ہیں وہ ملک میں رہتے نہیں جو رہتے ہیں ان کے پاس اختیار ہوتے نہیں ۔یہاں ہر کام اﷲ نے کرنا ہوتا ہے۔بندوں نے نہیں ۔
کالم
ملکی سیاست اور قرضے
- by Daily Pakistan
- فروری 13, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1040 Views
- 2 سال ago