ہجرتِ مدینہ کے بعد حضور اکرم نے فتح مکہ کے بعدحج ادافرمایا جس میں اپ نے فریضہ نبوت کی ادائیگی، تبلیغِ اسلام اور خدا کا پیغام خلق خدا تک پہونچا دینے کی گواہی میدانِ عرفات میں مجمع عام سے لی اور اس گواہی پر پھر خود اللہ تعالیٰ کو بھی گواہ بنایا۔
رسول اکرم ﷺ پوری امت اور امت کے واسطے سے پوری انسانیت کیلئے اسوہ ہیں۔ ”وادی عرفہ“ میں آپ نے اونٹنی پر سوار ہوکر لوگوں سے خطاب کیا۔ ”لوگو! ناحق کسی کا خون بہانا اور ناروا طریقے پر کسی کا مال لینا تمہارے لئے حرام ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کے دن اس مہینے اور اس شہر میں تمہارے لئے حرام ہے (اور تم حرام سمجھتے ہو) خوب سمجھ لو کہ دور جاہلیت کی ساری چیزیں میرے دونوں قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں، اور زمانہ جاہلیت کا خون معاف ہے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون یعنی ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کے فرزند کا خون معاف کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو نبی سعد کے قبیلے میں دودھ پینے کیلئے رہا کرتے تھے۔ ان کو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر ڈالا تھا اور دورِ جاہلیت کے سارے سودی مطالبے اب سوخت ہوگئے۔ اور اس سلسلے میں بھی سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سودی مطالبات کے ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ آج ان کے سارے سودی مطالبات ختم ہیں۔
”ائے لوگو! خواتین کے حقوق کے معاملے میں خدا سے ڈرتے رہو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر اپنے قیدِ نکاح میں لیا ہے، اور ان سے لذت اندوزی اللہ کے کلمہ اور قانون ہی کے ذریعے تمہارے لئے حلال ہوئی ہے۔ تمہارا ان پر خاص حق یہ ہے کہ جس شخص کا تمہیں اپنے گھر میں آنا ناپسند ہو ان کو تمہارے بستر پر بیٹھنے کا موقع نہ دیں۔ اور اگر وہ یہ خطا کر بیٹھیں تو تنبیہہ کے لئے تم ان کو معمولی سزا دے سکتے ہو اور ان کا خاص حق تم پر یہ ہے کہ تم اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق کشادہ دلی سے ان کے لباس اور کھانے پینے کا اہتمام کرو۔ اور میں تمہارے درمیان وہ سر چشمہ ہدایت چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہے اور اس کی رہنمائی میں چلتے رہے تو کبھی تم راہِ حق سے نہیں بھٹکوگے۔ یہ سرِ چشمہ ہدایت ہے ”اللہ کی کتاب“اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تم سے میرے بارے میں دریافت فرمائے گا (کہ میں نے خدا کا پیغام تم لوگوں تک پہونچا دیا یا نہیں؟) بتاو¿ تم وہاں میرے بارے میں خدا کو کیا جواب دو گے؟حاضرین نے یک زبان ہوکر کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا آپ نے سب کچھ پہونچا دیا، اور آپ نے نصح و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔“ اس پر آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی پھر لوگوں کی طرف اس سے اشارہ کرتے اور جھکاتے ہوئے تین بار کہا:”ائے اللہ ! تو بھی گواہ رہ، ائے اللہ! تو بھی گواہ رہ، ائے اللہ! تو بھی گواہ رہے میں نے تیرا پیام اور تیرے احکام تیرے بندوں تک پہونچا دیئے، اور تیرے یہ بندے گواہ ہیں کہ میں تبلیغ کا حق ادا کردیا۔“
ا±س تاریک دور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو تکریم آدمیت اور حقوق انسانی کا عملی درس دیا اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق و فرائض کی فکری اساس اور عملی نفاذ پر مبنی تاریخ ساز، دائمی، جامع اور ہمہ گیر منشور انسانی حقوق ”خطبہ? حج? الوداع“ کی شکل میں عطا فرما کر فلاحی اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ جس کی بدولت دور ظلمت کی تاریکی اور غیر مہذب مغربی دنیا بالآخر تہذیب و تمدن کی دولت اور انسانی حقوق سے متعارف ہو کر دور جدید میں داخل ہوئی۔انسانی ارتقاء کا یہ سفر جاری ہے۔ تاہم اس سفر کی سمت کی درستگی، حقوق انسانی کا حقیقی شعور اور نفاذ کی مخلصانہ و نتیجہ خیز کاوشیں اس وقت ہی ظہور پذیر ہوسکتی ہیں جب دور جدید کا انسان آج بھی سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح اپنا رہنما قرار دے جس طرح دور ظلمت میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی نے اسے رہنمائی عطا کی۔
کالم
نبی اکرمﷺ کا خطبہ حجة الوداع
- by web desk
- جون 29, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1595 Views
- 2 سال ago