کالم

نومبر ےوم شہدائے جموں

6نومبر کو ہر سال رےاست جموں و کشمےر مےں کنٹرول لائن کے دونوں طرف بھارتی مقبوضہ کشمےر اور پاکستان مےں ےوم شہدائے جموں مناےا جاتا ہے ۔پےشتر اس کے کہ جموں مےں اکتوبر نومبر 1947ءمےں مسلمانوں کے قتل عام اور انخلاءکی تفصےل بےان کی جائے ےہ مناسب ہو گا کہ رےاست جموں و کشمےر کے صوبہ جموں کے محل وقوع پر اےک نظر ڈال لی جائے ۔جموں و کشمےر کی حسےن و خوبصورت رےاست کا رقبہ عام حوالوں کے مطابق 84ہزار مربع مےل ہے ۔14اگست 1947ءکو جب پاکستان کی اسلامی مملکت دنےا کے نقشے پر ابھری رےاست جموں و کشمےر تےن انتظامی ےونٹوں پر مشتمل تھی ،صوبہ جموں ،صوبہ کشمےر ،صوبہ لداخ ،بلتستان و گلگت ۔1941ءکی مردم شماری کے مطابق رےاست کی آبادی 40لاکھ 23ہزار تھی ۔ان مےں مسلمان تقرےباً 31لاکھ تھے صوبہ جموں مےں ہندوﺅں کی آبادی دوسرے صوبے کے مقابلے مےں زےادہ تھی ےعنی 7لاکھ66ہزار ۔مجموعی طور پر صوبہ جموں مےں مسلمانوں کا تناسب آبادی 56فےصد سے زےادہ تھا البتہ بعض شہروں ،قصبوں ےعنی جموں ،اودھم پور ،کھٹوعہ ،اکھنور ،رےاستی ،سانےہ ،رام نگر مےں ہندوﺅں کی آبادی زےادہ تھی ۔صوبہ جموں کے چھ اضلاع جموں ،اودھم پور ،کھٹوعہ ،رےاستی مرپور اور پونچھ تھے ۔ان چھ اضلاع مےں زبان عموماً پنجابی اور ہندکو بولی جاتی تھی ان مےں ڈوگری زبان کا امتزاج بھی پاےا جاتا تھا ۔جموں شہر ڈوگرہ حکمرانوں کی جنم بھومی اور راجدھانی رہا ہے۔گلاب سنگھ نے رنجےت سنگھ کے دربار سے پروانہ حکمرانی حاصل کرنے کے بعد اپنی سلطنت کی بنےاد ےہےں سے رکھی تھی پھر اس کی حدےں رےاست جموں و کشمےر کی صورت مےں 84ہزار مربع مےل تک پھےل گئےں ۔ان مےں پونچھ ،چہتی ، ہنزہ،نگر اور دوسری چھوٹی چھوٹی جاگےرےں بھی تھےں جو بعد مےں براہ راست مہاراجہ کی علمبرداری مےں آ گئےں ۔ان کی اولاد حکمرانی کے ساےہ مےں پلتی اور پھےلتی رہی۔ڈوگرہ خاندان کے آخری حکمران مہا راجہ ہری سنگھ تھے انہوں نے تحت نشےنی کے وقت اعلان کےا تھا کہ مےرا مذہب انصاف ہے اور مسلمان مےری دو آنکھےں ہےں لےکن اس خوشنما اعلان کے پردے مےں رےاست کے مسلمان پسماندہ اور غلام رہے ۔چند تعلےم ےافتہ نوجوانوں نے جن مےں کشمےر مےں شےخ محمد عبداﷲ اور جموں مےں چودھری غلام عباس پےش پےش تھے ۔مسلمانوں مےں بےداری کی لہر آنے سے ان مےں سےاسی اور آئےنی حقوق کےلئے آوازےں بلند ہونے لگےں ۔مہاراجہ ہری سنگھ کے خاندان کے لوگوں اور حلقہ بگوشوں مےں اضطراب محسوس کےا جانے لگا ۔انہےں مضبوط کرنے کےلئے مہاراجہ نے جبرو طاقت کا سہارا لےا ۔تحرےک پاکستان نے رےاست کی سےاسےات کو متاثر کےا ۔ہندوﺅں کی سازشوں نے کشمےری مسلمانوں مےں تفرےق پےدا کی ۔کانگرےس نے مسلمانوں کے اےک حلقہ کو اپنے دام سےاست مےں الجھا لےا ۔جموں کشمےر مےں تحرےک پاکستان کو صوبہ جموں مےں نسبتاً زےادہ پذےرائی حاصل ہوئی ۔پاکستان اﷲ تعالیٰ کی تائےد سے معرض وجود مےں آگےا لےکن اسے دفاعی اور معاشی اعتبار سے غےر مستحکم رکھنے کےلئے انگرےز اور کانگرےسی لےڈر شپ نے رےڈ کلف اےوارڈ کے ذرےعے پٹھانکوٹ کا چور دروازہ رےاست مےں جارحےت کےلئے حاصل کر لےا تھا اس کے ساتھ ہی مہاراجہ ہری سنگھ اور شےخ محمد عبداﷲ کو شےشے مےں اتار کر بھارت سے الحاق کی سازش کو مکمل کر لےا تھا ۔ےہ جہاد اگست 1947ءسے شروع ہوا اور 24 اکتوبر 1947ءکو اسے منظم کرنے اور آزاد خطہ کا انتظام و انصرام سنبھالنے کےلئے آزاد حکومت رےاست جموں و کشمےر کا قےام عمل مےں آےا ۔ مجاہدےن آزادی بڑھتے بڑھتے سری نگر کے ہوائی اڈا تک پہنچ گئے ۔مہاراجہ ہری سنگھ دربار لگائے بےٹھا تھا کہ روشنی کے قمقمے گل ہو گئے ۔ اس نے اپنے راج سنگھاسن چراغ گل ہونے کی علامت پائی اور راتوں رات بھاگا ۔جموں اور اس کے گردونواح کے دےہاتوں اور قصبوں مےں ڈوگرہ فوج اور سنگھ پارٹی کے رضاکاروں نے پہلے سے قےامت برپا کر رکھی تھی ۔وہ نہتے دےہاتی مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگاتے ،انہےں قتل کرتے ،ان کی جائےدادےں لوٹتے ،عفت مآب خواتےن کو بے آبرو کرتے اور انہےں گھروں سے نکال دےتے تھے ۔گوےا قتل و غارت کا بازار گرم تھا ۔مسلمان نہتے تھے ،ان پر اسلحہ رکھنے کی پہلے سے پابندی عائد تھی ۔انہےں کہےں سے مدد نہےں مل رہی تھی ۔مہاراجہ ہری سنگھ سری نگر سے بھاگا تو جموں مےں اپنے خاندان کے بڑوں اور جوانوں مےں خود بندوقےں تقسےم کےں ،جو اس بات کی شہ کہ مسلمانوں پر حملہ کر دو۔جموں شہر کے مسلمانوں کو پہلے پولےس لائن مےں اکٹھا ہونے کےلئے کہا گےا ،وہاں ہزاروں مسلمان اپنی بےوےوں ،ماﺅں ،بہنوں اور بےٹےوں ،بےٹوں اور بھائےوں کے ساتھ نےلے آسمان کے نےچے بے ےارومددگار پڑے رہے ،نہ کھانے کےلئے کچھ نہ پےنے کےلئے پانی مےسر تھا ۔6نومبر 1947ءکو ےہاں سے انہےں پاکستان پہنچانے کے بہانے بسوں اور ٹرکوں پر بٹھاےا گےا ،لےکن سےدھا سرحد پر لے جانے کی بجائے انہےں سانبہ جانےوالی سڑک پر ماوا کے مقام پر لے جاےا گےا ۔وہاں اےک سازش کے تحت ہندو رضاکار بندوقوں ، تلواروں اور لاٹھےوں سے لےس پہلے سے چھپے بےٹھے تھے ۔وہ ان بسوں پر پل پڑے اور بڑی بے دردی سے مسافر مسلمانوں کو گاجر مولےوں کی طرح کاٹ دےا ۔سانبہ اور ماوا کے مقامات پر ہندو اور ڈوگرہ درندوں نے جس طرح مسلمانوں کے خون سے ہولی کھےلی ، وہ کشمےری تارےخ کا انتہائی دردناک باب ہے ۔جس طرح مسلمانوں کے بچوں کو ذبح کےا گےا ،اس طرح قصاب جانوروں کو بھی ذبح نہےں کرتے ۔انسان کے ہاتھوں انسان کا خون بہنے کا اس سے بھےانک منظر شائد چشم کائنات نے اس سے پہلے نہ دےکھا تھا ۔ماں کو بچوں کا ،بہن کو بھائی کا ،بےوی کو شوہر کا پتہ نہ تھا ۔جو اس قتل عام سے بچ گےا اس کا جدھر منہ اٹھا ادھر ہی کو چل نکلا ۔ادھر ادھر جہاں تک نظر جاتی تھی ،ہزاروں مسلمانوں کے بے گوروکفن لاشے تڑپ رہے تھے ۔جس طرح مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا گےا تھا اور مسلمانوں کی بے حرمتی کی گئی تھی ، اےسی بدترےن مثال کسی ظالم سے ظالم دور مےں بھی نہےں ملتی۔ ان قافلوں مےں صرف چند افراد ےہ خونی داستان سنانے کےلئے واپس پولےس لائن پہنچ گئے ۔انہوں نے تےسرے قافلے کو روانہ ہونے سے روک دےا ورنہ ان کا بھی وہی حشر ہوتا ۔شہدائے جموں منانے کا مقصد ان شہےدوں کو خراج عقےدت پےش کرنا ہے اور اس نصب العےن کو زندہ رکھنا بھی ہے جس کےلئے جموں کے ان مسلمان بزرگوں ،جوانوں کے خون سے وہ خطہ لالہ زار بنا تھا ۔بچوں کو نےزوں پر اچھالا گےا تھا اور ہزاروں عصمتوں کے آبگےنے ٹوٹے تھے ۔ نرےندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمےر کی آئےنی حےثےت کو تبدےل کر کے اپنے ہی ملک کی اقلےتوں کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کی ہے۔دنےا کی سب سے بڑی جمہورےت کی دعوے دار مملکت نے اپنے سےکولر ہونے کے نام نہاد لبادے کو بھی تار تار کر دےا اور اس حقےقت سے بھی صرف نظر کےا کہ آخر کےوں اس کے زےر تسلط علاقے مےں 15اگست ان کے ےوم آزادی کو ےوم آزادی کے طور پر مناےا جاتا ہے۔ےہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی ،غےر حقےقت پسندی اور وعدہ خلافےوں کا ہی نتےجہ تھا کہ جموں و کشمےر کے امن پسند عوام جو چاقو کو بھی ہاتھ لگاتے ہوئے سو دفعہ سوچتے تھے ،بارود اٹھانے پر مجبور ہو گئے ۔1988ءسے آج تک جمہوری دنےا کے سب سے بڑے دعوے دار بھارت کی آٹھ لاکھ درندہ فوج نے ڈےڑھ لاکھ سے زائد کشمےری مسلمانوں کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے شہےد کےا اور اب بی شائد ہی کوئی اےسا دن گزرتا ہو جب درجنوں کشمےری مسلمان جرم بے گناہی مےں موت کے پھندے پر نہ جھولتے ہوں ۔ےہ انہی شہےدوں کے خون کا ثمر ہے کہ آج مقبوضہ کشمےر کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے اور انشاءاﷲ وہ دن دور نہےں کہ شہےدوں کا ےہ خون رائےگاں نہےں جائے گا اور مقبوضہ کشمےر ا ٓزاد ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے