کالم

وزیراعظم سے پوچھا کس نے ہے؟

گزشتہ سے پیوستہ
یہ ایک ایسا پاور بٹن ہے کہ جسے دباتے ہی خزانے میں کروڑوں روپے حاضر ہو جاتے ہین۔ اچھا لوکل ڈسٹریبیوشن میں لائن لاسز زیرو پرسنٹ ہوتے ہیں۔فرض کریں لاہور کو چار زون میں تقسیم کرکے لوکل پاورڈسٹریبیوٹرز جن میں پبلک اور پرائیویٹ دونوں شامل ہوں اپنے زون کو پاور سپلائی دیں۔بجلی کے یونٹس کی قیمت مقابلے کی ہو۔تو بتایئے کوئی ایک یونٹ کے ضائع ہونے کا امکان باقی رہے گا؟امریکہ میں تو یوں ہی ہوتا ہے۔حکومت کا بنیادی مقصد صارفین کو بلا رکاوٹ اور مناسب قیمت پر بجلی مہیا کرنا ہے اور بس جبکہ پاکستان میں بجلی کو کما پوت بنا رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تشویشناک حقیقت ہے کہ حکومت اپنا حجم کسی صورت کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ وزرا اور محکموں کی تعداد محدود کی جائے۔جیسا کہ دفاع، خارجہ، داخلہ اور انڈسٹری۔باقی ایریاز میں ڈویژن بنا دیئے جائیں۔ بیوروکریسی کا حجم بھی بہت کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہت سارے ایسے ادارے بھی ختم کرنے ہوں گے ،جن کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں اور جن کے بغیر دنیا کا ہر کام چل رہا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر وزیراعظم معائنہ کمیشن اسی طرح کے ان گنت ادارے ، کمیشن اور ڈویژن ہیں ،جن کے بغیر بھی کام چل جاتا ہے۔وفاقی محکموں کے پاس اربوں روپے کی پول میں پڑی گاڑیاں فوری طور پر نیلام کر دینی چاہئے۔ایک ایک وزارت میں گاڑیوں کی حتمی تعداد صرف اللہ جانتا ہے ۔ان گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیورز اور پٹرول بھی شامل کرلیں۔یہ تماشا بھی ہمت کر کے ختم کر دینا چاہیئے۔ کسی ایسے شخص کو وزیر اعظم یا وزیر نہ بنایا جائے ،جس کی جان کو چوبیس گھنٹے خطرہ لاحق ہو ۔سیکیوریٹی اور پروٹوکول کا تصور مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔صرف سرکاری امور کی ادائیگی کےلئے ایک کار دستیاب ہو اور بس۔ نجی استعمال کےلئے وزیراعظم اور وزرا اگر چاہیں تو اپنے اخراجات سے ذاتی گاڑی رکھ سکتے ہیں ۔ پبلک آفس ہولڈرز کی تنخواہوں اور مراعات کو کم کر کے حد اعتدال کے اندر لایا جائے۔ فضائی سفر، بیرون ملک علاج، بجلی ،گیس اور فون کے بلز کی ادائیگی وغیرہ سے حکومت کو ہاتھ اٹھانا ہو گا۔پھر سول محکموں کے گمنام سربراہوں کی تنخواہوں کو بی پی ایس کی ذیل میں لانا ضروری ہے ۔ایم۔پی ون، ٹو اور تھری کو مکمل طور پر ختم کردینا چاہیئے ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی مراعات مکمل طور پر ختم کی جانی چاہئیں ۔بیرون ملک سرکاری خرچ پر علاج مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہیئے۔شہری انتظامیہ کی شہنشاہی کو یکسر ختم کرنا ہوگا۔عملہ، مراعات ، ہمہ اقسام ٹرانسپورٹ ، شہروں کے وسط میں ایکڑوں پر محیط رہائش گاہیں بھی ختم کرنی ہوں گی۔ مقروض ریاست کو اب تک معاف کیے گئے تمام تر قرضے مع سود فوری طور پر واپس لے لینے چاہیئں۔میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن ایک عوامی بغاوت اگر ایسا کروا سکے تو پاکستان کے قرضے اسی سے ادا ہو سکتے ہیں۔ دفاع سے متعلق تمام اداروں کو بھی اپنے اخراجات ، حجم اور تمام تر ذیلی اور اضافی ذمہ داریوں اور مصروفیات سے دستکش ہو کر اپنے بنیادی کام کی طرف متوجہ رہنا ہوگا۔یہ ذرا مشکل کام ہے لیکن اگر ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ جہاں تک معدنیات کی تلاش کا معاملہ ہے۔تو قوم کو مبارک ہو ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک اربوں روپے کی سائیٹیفک ریسرچ گرانٹ خرچ کر کے دنیا کی نایاب اور منفرد تحقیق کرا رکھی ہے ۔یقینی طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پاکستان کے بہترین سائنسدانوں کا ہجوم ہو گا ۔یہ معدنیات اور دیگر سائنسی ترقیات ہمارے ذہین سائنس دان خود کر لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے