کالم

وفاقی وزیر تعلیم کہاں ہیں؟

نگران حکومت سے پہلے والے وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کا اسلوب وزارت اعلی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ دراصل ان کے خیالات و رجحانات کچھ اور تھے ۔ پاکستان میں المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں ہمیشہ وزارتوں کی بندر بانٹ کے دوران "وزارت تعلیم”کسی سیاستدان کی ترجیح نہیں ہوتی ۔اسے سیاسی اصطلاح میں بچی کھچی وزارت کہا جاتا ہے ،اور جس سیاست دان کے لیے کوئی بھی منہ مانگی وزارت باقی نہ بچے ،اسے پھر وزارت تعلیم دے کر بہلایا جاتا ہے۔رانا تنویر حسین حلقے کی سیاست کے ماہر اور ن لیگ کی سابق مختصر حکومت سے زیادہ اہم وزارت، جیسا کے دفاعی پروڈکشن،صنعت و تجارت، دفاع وغیرہ کی توقع رکھتے تھے۔وہ وزیر تعلیم بن تو گئے لیکن سوائے گالی گلوچ کرنے اور ن لیگ کے "آزمودہ وارداتیوں کے گروپ ” جن میں احسن اقبال ، خواجہ آصف اور ایک نیم صحافی سینٹر شامل ہیں،کے ڈیزائن میں رنگ بھرنے کے اور کچھ نہیں کر پائے۔ان کی صدارت میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے انٹرویوز ہوئے ،لیکن وہ سوائے گرمیوں کے موسم میں پنجابی جسم پر انگریزی سوٹ پہن کر ہنسنے مسکرانے کے،اور کچھ نہیں کر سکے ،ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین اسی امیدوار کو بنایا گیا جسے ن لیگ کے پرائیویٹ یونیورسٹیز مافیا ڈان بنانا چاہتے تھے ۔ان نیک پاک مافیاز کے اپنے اپنے مالی مفادات ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے وابستہ ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ کسی آزاد طبع اور قانون ضابطے کی باتیں کرنے والے کو چیئرمین بنانے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔اسی طرح رانا تنویر حسین وفاقی یونیورسٹیوں کے سربراہان کے تقرر میں میرٹ اور ” ریڑھ کی ہڈی” کا ثبوت پیش کرنے میں بھی ناکام رہے۔تین وفاقی یونیورسٹیوں میں سے ایک بڑی یونیورسٹی کو ابھی تک وائس چانسلر نصیب نہیں ہوا اور ایک جونیئر مگر باوسائل پروفیسر ایکٹنگ وائس چانسلر کے طور پر یونیورسٹی کو ٹریکٹر ٹرالی کی طرح سے چلا رہا ہے۔اس طرح کی وزارت میں جب نئے نگران وفاقی وزیر مدد علی سندھی کا بطور وزیر تقرر ہوا تو امکان تھا کہ ہمارے سندھی دانشور وفاقی وزیر تعلیم بن کر ذہانت اور بے باکی کے ساتھ وزارت تعلیم کے معاملات کو درست کریں گے۔لیکن ان کی اب تک کی کارکردگی سے ایسا کوئی سراغ نہیں مل رہا کہ؛ انہیں اعلیٰ تعلیم کے معاملات و مسائل کا ادراک ہے، یا وہ ان امور میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ہر وزارت کی طرح وفاقی وزارت تعلیم میں بھی بیوروکریسی اور نیم بیوروکریسی کے شعبدہ بازوں کا ایک گروپ موجود ہوتا ہے ، جو نئے آنے والے ہر وزیر کو تولنے کے بعد اس کے اصل وزن کے مطابق اس کے سامنے اصل معاملات و مسائل کے راز کھولتے ہیں۔ان تجربہ کار جادوگروں کے مشورے پر وفاقی وزارت تعلیم سنبھالتے ہی مدد علی سندھی صاحب اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس کے گرلز کالج میں یوم دفاع کے حوالے سے تقریب کی صدارت کرنے پہنچ گئے ، اور طالبات کو بتایا کہ آج چھ ستمبر والا جذبہ کہیں نہیں نظر نہیں آتا ،انہوں نے طالبات کو یہ بھی بتا دیا کہ آج بھی لوگ قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔یہ سب بتانے کے بعد انہوں نے کالج کی عمارت کا معائنہ بھی کیا۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ وزارت تعلیم کے ملازمین ،جنہیں وہ قابضین قرار دیتا ہے، وزیر تعلیم صاحب کو شاید یہی بتا رہے ہیں کہ ان کی وزارت ڈائریکٹوریٹ آف کالجز تک ہی محدود ہے۔جبکہ مدد علی سندھی صاحب کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی یونیورسٹیوں کے الجھے ہوئے معاملات پر بھی توجہ دینی چاہیئے۔ ابھی تک وفاق کی تین میں سے بعد از خرابی بسیار،دو یونیورسٹیوں کے سربراہان کا تقرر عمل میں آ سکا ہے۔جب کہ تیسری یونیورسٹی کا مسئلہ ہنوز حل نہیں ہو رہا ۔ پرانے وزیر تعلیم نے اپنی اسی وزارت کے کل پرزوں کی مدد سے پاکستان کی فاصلاتی نظام تعلیم کی واحد یونیورسٹی کی سربراہی کے معاملے کو تماشا بنا کر رکھ چھوڑا تھا۔اس تماشے کی تخلیق میں ایچ ای سی کا بھی اپنا ایک کردار ہے۔اب معاملہ اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو ہے۔لیکن پون سال گزر جانے کے باوجود وفاقی وزارت تعلیم عدالت عالیہ کی خدمت میں ایک سوال کا جواب پیش کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکی ،وہ سوال عدالت عالیہ کے معزز جج صاحب نے گزشتہ دنوں بھی سرکاری وکیل سے پوچھا تھا ،سوال یہ ہے کہ؛ آپ (وفاقی وزارت تعلیم) نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا اشتہار دے کر انٹرویوز کیئے اور کامیاب امیدواروں کے نام آگے بھیجنے کے بعد اشتہار کینسل کیوں کر دیا؟ جب سے یہ کیس ہائی کورٹ کے روبرو آیا ہے،عدالت وفاقی وزارت سے یہی وضاحت طلب کر رہی ہے ۔اس سوال کے جواب میں رانا تنویر حسین کے دور میں تو وفاقی وزارت تعلیم والے اپنے وزیر صاحب سمیت اپنے کوٹ یا قمیض کے بٹن دیکھنے لگتے تھے۔ قیاس چاہتا ہے کہ جو بھی گڑبڑ اس معاملے میں کی ہو گی وہ سابق حکومت کے وزیر نے کی ہو گی ۔نگران حکومت کے وزرا کو تو جہاں تک ممکن ہو سکے تمام الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ لیکن وہی پرانی بات ،کہ وفاقی وزیر تو مانتا ہے ، پر وزارت تعلیم کا سیکرٹری نہیں مان رہا۔ جو بھی ہو ،عدالت عالیہ کی برہمی کا بوجھ تو وفاقی وزیر صاحب پر ہی آئے گا ۔خبر کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران معزز عدالت نے حکومتی افسران پر غصے کا اظہار بھی کیا اور حکم دیا کہ گزشتہ 9ماہ سے جاری حکومتی کاروائی پر اگلی سماعت میں سابقہ تمام تر ریکارڈ پیش کیا جائے ۔ مزید یہ کہ معزز عدالت نے وفاقی وزارت تعلیم کے حکام کو حکم دیا کہ اگلی سماعت تک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعیناتی کے حوالے سے مزید کوئی بھی کاروائی کیئے بغیر عدالت میں جواب جمع کروایا جائے۔اس حوالے سے دلچسپ اور ہنسی کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم ایک طرف تو عدالت عالیہ کے کسی استفسار اور حکم کا جواب دینے سے گریز کر رہی تھی ،دوسری طرف وائس چانسلر تعینات کروانے کے لیے صدر پاکستان ،جو وفاقی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہوتے ہیں، کے پاس بڑی مستعدی سے ایک نیا پینل بھجوا چکی تھی ۔شاید سابق وفاقی وزیر تعلیم کا خیال ہو کہ جب وائس چانسلر کی تعیناتی عمل میں آ چکی ہو گی تو عدالت والا کیس غیر موثر ہو جائے گا ۔بھلا ہو صدر پاکستان کا کہ انہوں نے وزارت تعلیم کو پینل والی سمری دستخط کئے بغیر اس تاکید کے ساتھ واپس بھجوا دی ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک سمری پر کام روک دیا جائے۔اب عدالت عالیہ نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دینے کے لیے وزارت کو اکتوبر تک کا مزید وقت دے دیا ہے۔دراصل انصاف کو مخر کرنا ہی بعض ملکوں کی عدالتوں کے لیے آسان راستہ رہتا ہے ۔اگر عدالت وفاقی وزرات تعلیم سے جواب حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو رہی تو سیکرٹری ایجوکیشن کو توہین عدالت کا نوٹس دے کر دو گھنٹے میں جواب طلب کیا جا سکتا تھا ۔ لیکن عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ؛ اگر عدالت متعلقہ یونیورسٹی کو مسلہ حل ہونے تک اپنے انتظامی کنٹرول میں لے لے تو اگلے ہی روز اشکبار آنکھوں کے ساتھ سارے ریکارڈ عدالت کی خدمت میں پیش کر دیئے جائیں گے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ عدالت مہینوں سے ایک فائنل مانگ رہی ہے ، حکومت بدل گئی ، وفاقی وزیر بدل گیا ، لیکن وزارت کا چلن اور ضد نہیں بدلی۔وجہ شاید یہ ہے کہ سیکریٹری ایجوکیشن وہی پرانے والے ہیں۔عدالت اگر چاہے تو پندرہ منٹ میں متعلقہ فائنل منگوا سکتی ہے ،لیکن اس کے لیے حسن کرشمہ ساز کی ضرورت ہوتی ہے۔وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی کو ہائیر ایجوکیشن کے مسائل کی طرف سنجیدہ توجہ دینی چاہیئے ۔ وزارت تعلیم کے جغادری عملے نے انہیں ڈائریکٹوریٹ آف کالجز میں الجھا رکھا ہے ۔انہیں اصل توجہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر دینی چاہیئے۔آج کل معاملہ ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی بھرتی کا درپیش ہے۔ یہ وہ اسامی ہے جس کےلئے ایچ ای سی کی طرف سے پانچ بار اشتہار بھی شائع کئے گئے تھے تاہم سابق چیئرمین کے دور میں بیوروکریٹ شائستہ سہیل صاحبہ کی ڈیپوٹیشن پر بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعیناتی نے اتنا طول پکڑا کہ ان اشتہارات میں مشتہر کی گئی اسامی پر بھرتی کی نوبت ہی نہ آ سکی ۔اب جبکہ پچھلے دنوں شائستہ سہیل صاحبہ کی بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر تقرری کو ختم کیا گیا ہے تو ضرورت اس بات کی تھی کہ پرانے اشتہارات پر مدار کرنے کی بجائے ایک نیا اشتہار دیا جاتا ،تاکہ نئے امیدوار بھی شامل ہو سکتے ۔اس طرف وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی کو توجہ دینی چاہیئے تھی۔اس وقت موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے 13ستمبر کو پرانے اشتہار کی بنیاد پر انٹرویوز لینے کا اعلان کیا ہے۔شارٹ لسٹڈ امیدواروں کے بارے میں تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ موجودہ چیئرمین کے آس پاس ہی کے لوگ ہیں ۔اور قریبا سبھی کہیں نہ کہیں وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی کو ایک یا دو ٹینیور کے لیے وائس چانسلرز رہنے والے امیدواروں کو کسی نئی اسامی پر انٹرویو کرنے سے پہلے ان کے ذاتی اثاثوں کا معتبر ایجنسیوں کے ذریعے فنانشنل آڈٹ لازم قرار دے دینا چاہیئے ۔اس طرح شفافیت اور مالی ایمانداری کو فروغ ملنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ورنہ حسب سابق سونے کی ننھی ننھی اینٹیں اور رہائشی پلاٹ خریدنے کے شوقین ہی منتخب ہوتے رہیں گے۔ ادھر ایچ ای سی نے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنی آزمودہ شعبدہ بازیوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔جس کے مطابق اصل انٹرویوز سے پہلے "ابتدائی انٹرویو” کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اس میں امیدواروں کو حتمی انٹرویو سے پہلے بھی ایک ابتدائی انٹرویو سے گزرنا پڑے گا۔اس اعلان سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی اسامی کے "عام” امیدواروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ستم ظریف کا کہنا ہے کہ ؛ یہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا سوچا سمجھا طریقہ واردات ہے۔یہ دراصل پرانے وارداتیوں کا ایک منظم گروہ ہے ،جس کے سرغنہ ڈاکٹر مختار احمد ہیں ۔ وہ پہلے وفاق کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے درخواست دہندہ امیدواروں کے ساتھ یہ تماشا کیا کرتے تھے ۔جس میں انٹرویوز سے پہلے اچانک امیدواروں کو ایک آی میل موصول ہوتی تھی اور اس میں عجیب وغریب ڈیٹا فوری طور پر طلب کیا جاتا تھا۔اب ایک بڑی تعداد امیدواروں کی لمحہ بہ لمحہ آی میل چیک کرنے کی عادی نہیں ہوتی ۔ہاں اس گروہ نوسر بازاں کے امیدوار تو ہر وقت الرٹ ہوتے تھے اور پہلے سے تیار کردہ ڈیٹا(جو کہ فرضی تفصیلات پر مشتمل ہوتا ہے) بھیج دیتے ۔جس کے بعد صرف انہی چند امیدواروں کا انٹرویو لیا جاتا ، جنہوں نے مشکوک آی میل والی فرضی تفصیلات بھیجی ہوتی تھیں ۔اب ایچ ای سی کا تازہ طریقہ واردات بھی اسی سے ملتا جلتا معلوم ہوتا ہے ۔یہ سارے وہ معاملات و مسائل ہیں جن پر توجہ دینا اور درست کرنا وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔اسی لیے میں نے استفسار کیا ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم کہاں ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے