جمعة المبارک کو نیشنل سیکورٹی کونسل کا غیر معمولی اجلاس اس عزم صمیم کے ساتھ ختم ہوا کہ پاک افواج قومی سلامتی اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جائے گی۔ مسلح افواج کا اولین فریضہ سرزمین مقدس کی حفاظت او پاکستانیوں کے جان ومال کا تحفظ ہے۔ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی صدارت میں ہونے والے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس میںتینوں مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر حکومتی وعسکری نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں فضائیہ اور بری فوج کے سربراہان کے ساتھ وفاقی وزیر خارجہ نے ایران کی طرف سے 4 روز قبل بلوچستان میں میزائل حملے اور اس کے نتیجے میں 2 پاکستانی بچیوں کی شہادت سے متلعق بریف کیا۔ فضائیہ کے سربراہ نے جمعرات کو پاکستان کے جوابی حملے اور 7 افراد کی ہلاکت کی بابت تفصیلات دیں، پاک فضائیہ کے طیاروں نے خراساں میں کالعدم تنظیموں بی ایل اے اور پی ایل ایف کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ہلاک ہونے والے ایرانی شہری نہیں تھے۔ وزیراعظم ان دنوں ڈیوس کانفرنس میں شریک اور سائیڈ لائن ملاقاتوں میں مصروف تھے (جو دورہ مختصر کرکے لوٹ آئے ) پاکستان کی طرف سے ایران میں سفیر مدثر ٹیپو کو واپس بلا لیا گیا جبکہ ایرانی سفیر کو ملک سے چلے جانے کا کہہ دیا گیا، یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کو ایران سے سفارتی تعلقات معطل کرنے جیسا کڑوا او ناپسندیدہ قدم اٹھانا پڑا۔2021ءسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے اور شائید اِسی لئے پاکستان ایران سے یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ اس واقعہ پر اظہارِ تاسف کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اِس قضیے کے حل کی طرف بڑھے گا. امید بر نہ آنے پر پاکستان کو ایران کے خلاف جوابی کارروائی کا فیصلہ کرنا پڑا.۔سیستان کے ڈپٹی گورنر علی رضا مرہماتی کے مطابق، "یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح چار بج کر پانچ منٹ پر کیا گیا جس میں ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے شہر سراوان کے ایک سرحدی گاو¿ں کو نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں تین خواتین، دو مرد اور چار بچے مارے گئے جو کہ ایرانی نہیں تھے”. دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق، "جمعرات کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوص ٹھکانوں پر انتہائی مربوط فوجی حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کا کوڈ نام "مرگ بر سرمچار” تھا۔ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کے دوران متعدد دہشت گرد مارے گئے”. دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا مقصد اپنا دفاع کرنا تھا۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے، "پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے کا ہدف وہ عناصر تھے جو پاکستان کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔ اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ ’کولیٹرل ڈیمج‘ سے بچنے کے لئے انتہائی احتیاط برتی گئی”۔ ایران کو خبردار کرنے کے انداز میں مزید کہا گیا، ” پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوج ہمہ وقت تیار ہے”۔ یوں پاکستان کا پیغام ایران کے علاوہ دیگر ممالک کو بھی پہنچ گیا۔دونوں ممالک کے درمیان جاری موجودہ کشیدگی کی وجوہات میں سے بارڈر مینجمنٹ، فرقہ وارانہ تعصب، افغان سرحد کا طالبان کے کنٹرول میں ہونا، امریکی دباو¿ کی وجہ سے گیس پائپ لائن کے منصوبے میں غیر ضروری تاخیر، انٹیلیجنس شیئرنگ میں دلچسپی کا فقدان اور فیصلہ سازی میں دونوں ممالک کی حکومتوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹس کا کلیدی اور فیصلہ کن رول شامل ہیں. تاہم یہ معاملات نہ تو نئے تھے اور نہ ہی اتنے نازک کہ حملے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہا ہو. سفارتی ماہرین کے مطابق ایرانی قیادت سے حملے کا فیصلہ کرنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے. غالباً اسے عراق اور شام کے بعد پنجگور پر حملے کا مقصد پاسداران انقلاب کی طاقت سے پاکستان، خطے کے دوسرے ممالک اور مغرب کو مرعوب کرنا ہو مگر وہ بھول گیا کہ اس کے مد مقابل عراق یا شام نہیں، ایٹمی طاقت پاکستان ہے. تاہم کشیدگی سے گریز کی پالیسی کو خیر باد کہہ کر پنجگور پر ایرانی حملے نے بہت سے سوالات پیدا کر دئیے ہیں۔پاکستان ایران کشیدگی میں اضافہ کو روکنے کے لیے چین‘ ترکی‘ سعودی عرب‘ روس اور امریکہ سرگرم ہے۔ سفارتی سطح اور پس پردہ کوششیں جاری ہیں برادر اور پڑوسی ملک جہاں کشیدگی میں شدت کو رکوانے کے لیے تگ ودود کررہے ہیں وہاں پاکستان کے موقف کو درست بھی تسلیم کررہے ہیں ۔پاکستان نے پڑوسی ممالک کے لیے ہمیشہ خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا ،وہ تمام ممالک کی خود مختاری اور سلامتی کا احترام کرتا ہے لیکن جب سوال اس کی خود مختاری کا ہو تو ہر حدتک جانا اسکا حق ہے۔