ایک غریب آدمی اپنے کچے کوٹھے کی چھت پر کھردے بان کی چارپائی پر لیٹا ہو اتھا اس کا معصوم بیٹا پہلو میں اسکے کمزور بازو پر سر رکھے لیٹا ہو ا باپ سے پیار بھر انداز میں باتیں کرتے ہوئے کہنے لگا ،ابا توں کرائے دی گڈی منگا ،اسی او دے وچ بیٹھ کے ہوٹل جاواں گے ،امیرا ں دی طرح روٹی کھاواں گے ، آئیس کریم دی مزے لے کے کھاواں گے ، ماں لئی روٹی ڈبے وچ بن کے لیا واں گے ، باپ بیٹے کی خیالی باتیں سنتا رہا پھر لمبی حسرت بھری سانس لے کر کہنے لگا ،پُت کھتوں یعنی بیٹا کہاں سے یہ خرچ کریں گے ،جب کھانے کے لالے پڑے ہوں ، یہی حال ہمارا ہے ،ڈیفالٹ ہونے سے بچ گئے ہیں لیکن نئے صوبے بنانے کی باتیں بنارہے ہیں،آج کل کچھ سیاسی حضرات ایسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ، بھارت کی مثال دے کر اپنی بات کو پرتا ثیر اور مدلل بناتے ہیں ،ظاہر اً اس تجویز میں آسانیاں محسوس ہوتی ہیں کیوں کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور پھر انتظامی مسائل کا یہی حل محسوس ہوتا ہے کہ چار یا پانچ صوبوں کی بجائے بارہ یا اس سے زیادہ بنادیے جائیں تاکہ عوام سے مسائل حل کرنے میں تیزی کے ساتھ بہتری آسکے ، ہم کیوں کہ فارغ قوم ہیں اس لئے اس بحث میں الجھے رہیں گے حاصل کچھ بھی نہیں ، اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کیا ہم نے سوچا ہے کہ اخراجات میں کس قدر اضافہ ہوگا ، ہر صوبے کی اپنی اسمبلی ہوگی ، اس کے تعمیراتی اخراجات اگر چہ ون ٹائم ہوں گے ، ممبران کی کتنی تنخوا ہیں ان کی دیگر طرح طرح کی مراعات گاڑیاں ،پیٹرول وغیرہ گورنر اس کا دفتر عملہ دفتر کی عمارت اس کا خرچہ پھر چیف منسٹر اس کی کابینہ وزرا کی سہولیات انکی شاہانہ مراعات اسمبلی کا سٹاف وزرا کاسٹاف ،عدالتوں کا قیام،ججوں کی تقرری، ان کی تنخواہ اور مراعات اسکے علاوہ انتظامی امور چلانے اور لا اینڈ آرڈر قائم کرنے کیلئے پولیس اسکے اخراجات پھر نظر آنے والے اور نہ نظر آنے والے طرح طرح کے واقعاتی اور حادثاتی اخراجات عدلیہ انتظامیہ اور قانون کی وزارتیں انکا عملہ یعنی یہ سب کچھ کرنے کیلئے مالیاتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ملک قرض میں پھنسا ہوا ہے ، دن رات مشکل سے گزر رہے ہیں ، ایسے میں نئے صوبوں کا خیال وقت گزارنے کا موضوع تو بن سکتا لیکن عملی جامہ پہنانے کیلئے سازگار حالات چاہیے ، ملک کے دستور کے مطابق تجویز اور پھر پارلیمنٹ کی منظوری راستے کا تعین کرسکتی ہے ، اس وقت وفاق صوبوں کی مالی مدد کررہا ہے ، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ جانی اور اور مالی کے ازالے کیلئے بھی وفاق صوبوں کی مالی مدد کریگا ، عوام ملک کے مالی طور پر اخراجات پورے کرنے میں طرح طرح کے ٹیکسوں کی شکل میں بوجھ اپنے کندھوںپر اٹھائے ہوئے ہیں ،مہینے بھر کے گھریلو اخراجات پورے کرنا مشکل ہورہا ہے ، تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں حد درجہ پریشان ہے ، حال ہی میں چینی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ، حکومت کچھ کہہ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی دو سو روپے کلو مشکل سے مل رہی ، آٹے کی قیمت بھی بڑھ گئی ۔ بیس کلو آٹے کی قیمت اٹھارہ سو روپے ہوچکی عوام کیا کرے کھانا پینا چھوڑ دے جس ادارے کا دل چاہتا ہے اپنے اخراجات اور آمدنی میں توازن نہ ہونے کا رونا رو کر سروس چارجز بڑھا لیتا ہے ہمارے ملک میں احتساب صحیح معنوں میں نہیں ہورہا،بڑے لوگ ملک لوٹ کر امیرزادے بنتے ہیں ان کی نسلیں ملک پر حکومت کرنے کیلئے زیر تربیت ہیں کچھ ہی عرصے میں وہ ملک کے سربراہ ہوں گے ،کرپشن عروج پر ہے نہ پکڑائی نہ دھلائی ، اگر قانون کی صحیح معنوں میں حکمرانی ہو احتساب کڑا ہو تو پھر شاید ملک کے حالات بدل جائیں ، امیر تو دن گزرنے کے ساتھ اور امیر ہوتا جارہا ہے اور غیر قبر کے قریب ہوتا جارہا ہے جب تک ملک میں نیک نیتی کے ساتھ حکومت کام نہیں کرے گی اس وقت تک ملک اسی طرح ہچکولے کھاتا رہے گا آج کل نئے صوبوں کے بنانے اور ان میں مزید اضافوں کی بات تو ہورہی ہے کل کچھ اور موضوع سخن ہوگا ، راہنما حضرات ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے زبان کم کم کھولتے ہیں ، یہاں کا ماحول یہ ہے کہ لگانے والے کو ملتا ہے ، انتخاب میں کامیابی نسلوں کی بھوک ختم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے لوگوں میں احساس کمتری کیساتھ نفرت کا جذبہ ابھرتا ہے ، یادرکھیں کامیاب معاشرہ اور حکومتیں وہی ہوتی ہیں جب حقوق ، فرائض آسانی سے ادا ہوتے رہیں جس زمانے میں انسانوں کو حقوق حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑے اسے جبر کا دور کہا جاتاہے ، اگر دعا کا سہارا ہو تو وہ ظلم کا دور ہوتا ہے اور جب کچھ لوگ حق سے محروم ہوں اور کچھ حق سے زیادہ سمیٹ رہے ہوں تو وہ افراتفری کا وقت ہوتا ہے جب ہر شے ایک ہی دام میں فروخت ہورہی ہو تو وہ اندھیر نگری کا زمانہ ہوتا ہے ، بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذکورہ بالا حالات کا ملغوبہ ہے توازن نہیں بلوچستان کیوں پنجاب کے خلاف ہے اس لئے کہ وہاں جیسی ترقی اور خوشحالی ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی لوگ حقوق سے محروم ہوکر جھگڑے فساد میں داخل ہوگئے ، کاش ہم نے اپنے مفاد کو قوم سے مفادپر قربان کرنا سیکھ لیں تو قوم ترقی کرنا شروع کردیگی ، فلاحی معاشرہ صرف حکم اور بدلتے چہروں سے قائم نہیں ہوگا ،یہ محبت اخلاق شوق اور نثار کرنے کے جذبات سے پروان چڑھے گا،حکومت کو چاہیے وہ اپنے اخراجات کو کم سے کم کرے ، سادگی اپنائیں وزرا سادگی کا مظہر ہوں تاکہ عام آدمی ان کی تقلید کرے ، ایسا قانون بنائے کہ کرپٹ لوگوں کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ ایسے بدبخت لوگوں میں خوف پیدا ہو اور ملک کے مالیاتی ذرائع ان جونکوں سے چھٹکارہ پاسکے ، سیاست کو کمائی کا نمایاں ذریعہ بنانے کی بجائے عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی ، خوشحالی کا ذریعہ بنے ، اللہ تعالی ہمارے ملک کو صحیح فلاحی ریاست بنائے ، حکومت بنانے اور چلانے والوں کو درد دل عطا فرمائے ، وہ صرف حکومتیں نہ کریں بلکہ خدمت خلق کے جذبے سے بھی سرشار عوامی نمائندے بنیں۔
