پاکستان کے عدلیہ کو سرجری کی ضرورت ہے ۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فا ئز عیسیٰ نے سامعین اور نا ظرین سے پوچھا آپ میں سے جو پاکستان میں عدلیہ اور انصاف کے نظام سے مطمئن ہیں تو حق میںہاتھ اُٹھائیں ۔ مگر بدقسمتی سے ججز حضرات ، وکلاءبرادری اور قانون کے طلباءسے کھچا کھچ ہال میں کسی نے بھی عدلیہ اور انصاف کے نظام کے حق میں ہاتھ نہیں اُٹھایا۔خود ججز حضرات ، وکلا برا دری اور قانون کے طالب علم عدلیہ کے نظام سے کوئی زیادہ خوش نہیں ۔ کسی ریاست کے چار ستون میں مقننہ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور صحافت شامل ہیں مگر اس میں عدلیہ کا کردار انتہائی اہم اورکلیدی ہوتا ہے اورریاستی اداروں کی کسی کنفیوژن میں تمام اداروں کی نظریں مسائل حل کرنے میں عدلیہ پر ہوتی ہیں۔ پاکستان کو بہت سارے اندرونی اور بیرونی مسائل کے ساتھ ساتھ عوام کو انصاف کی فراہمی میں سستی اور کاہلی کا مسئلہ بھی درپیش ہے ۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے مطابق وطن عزیز میں کرپشن اور بد عنوانی میں پولیس سر فہرست اور عدلیہ دوسرے نمبر پر ہے ۔ دوسرے عالمی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان انصاف کی فراہمی میں دنیا کے 180 ممالک میں 120 ویں نمبر پر ہے ۔ فی الوقت عدالتوں میں تقریباً 21 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں انصاف کی راہ میں اس قسم کی سست رفتاری سے عوام کا اعتماد عدلیہ سے اُٹھتا جا رہا ہے۔جو نہ صرف ملک کے 22 کروڑ عوام بلکہ معزز عدلیہ کے حق میں بھی نہیں۔اس سے معزز عدلیہ کی تضحیک اور توہین ہو رہی ہوتی ہے۔کسی بھی ریاست میں جب عدلیہ کا کردار موثر نہیں ہوتا وہ ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔معزز سپریم کو رٹ نے مختلف کیسوں کو شفافیت اور انصاف سے حل کرنے کے لئے 2009 کی جو جوڈیشل پالیسی بنائی ہے اسی پالیسی کے مطابق ہر قسم کے عدالتی کیسوں کے حل کرنے کے لئے ٹائم فریم یعنی وقت مقرر ہے ۔ مثلاً دیوانی مقدمات کے حل کے لئے معزز سپریم کورٹ نے ایک سال کا وقت مقرر کیا ہے۔فیملی مقدمات کیس فیصلہ کرنے کےلئے 6 ماہ وقت مقرر ہے۔کرایہ داری کیسز کے لئے ٹائم فریم یا وقت مقررہ 4 ماہ، تعزیرات پاکستان میں 7سال تک سزا پانے والوں کو کیسز کے لئے مقررہ وقت 6 ماہ، سات7 سال سے اوپر سزاﺅں والے کیسز میں فیصلہ کرنے کے لئے ٹائم فریم ایک سال، سول کیسز میں حکم امتناعی درخواست فیصلہ کرنے کے لئے 15 دن ، منشیات کیس کے لئے ٹائم فریم 6 مہینے، غیر قانونی بے دخلی کے لئے کیس کے لئے ٹائم فریم 60 دن، ضنمانت درخواست فیصلہ کرنے کےلئے جوڈیشل مجسٹریٹ کے لئے ٹائم فریم 3 دن ، سیشن اور ایڈیشنل ججز کے لئے اسی کیس میں ٹائم فریم 5 دن اورہائی کورٹ کے لئے ضمانت درخواست فیصلہ کرنے کے لئے 15 دن مقرر ہیں۔اگر ہم سپریم کو رٹ کے مندرجہ بالا واضح احکاما ت پر نظر ڈالیں تو بد قسمتی سے ما تخت عدلیہ سپریم کو رٹ کے احکامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خاطر خوا ہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ اس میں صرف عدلیہ کا قصور نہیں بلکہ ساتھ ساتھ وکلا ، ریڈر حضرات بھی اس میں برابر کے قصوروار ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ریڈر حضرات اس لیول کے نہیں ہوتے جس لیول اور معیاری فیصلہ سازی کےلئے سکل اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سپریم کو رٹ اور لا کمیشن کی قومی پالیسیوں کو سمجھ سکیں اور ججز کے ساتھ باہم ملکر اسکو احسن طریقے سے Translate اورنا فذ کرنے میں مدد دے سکیں۔بد قسمتی سے وہ سائلین کو بغیر کسی لاجک اور دلیل کے تاریخ پہ تاریخ دے رہے ہوتے ہیں اور آخر میںوہ ملک کے سست عدالتی نظام سے تنگ آکر قانون خود اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔معزز ہائی کورٹ سے استد عاہے کہ وہ ما تخت عدالتوں کے وقتاً بوقتاً وزٹ کریں ۔ علاوہ ازیں ججز حضرات کی استعداد کارمیں کمی بیشی کو بھی تربیتی کورسز سے دور کیا جائے ۔معزز ججز حضرات کو کیسز وائنڈنگ اپ کرنے یعنی منطقی انجام تک پہنچانے، فیصلہ سازی قوت بڑھانے اور کیس ڈرافٹنگ میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ جس کےلئے ضروری ہے کہ انکے اس قسم کے پیشہ ورانہ کمزوریوں کوCapacity Enhancing measures سے دور کیا جائے۔ وکلا بار کونسل کے قوانین تبدیلی لانی چاہئے اور انکو قانوناً اس بات کا پابند بنانا چاہئے کہ بار بھی مختلف کیسوں میں مقررہ وقت پر پیشی کریں اور مختلف بہانے نہ بنائیں۔ ہمارے محترم ججز حضرات اور متعلقہ عملہ پاکستان جیسے غریب ملک میں بین الاقوامی معیار کی تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں وہ مظلوموں کو انصاف کی فراہمی کے لئے لیتے ہیں۔ اگر عوام کے مسائل ہونگے تو وہ عدلیہ کو دعائیںدیں گے ۔کیونکہ بروقت انصاف نہ ملنے کی وجہ عوام اور سائلین عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، پسماندہ اور کمزور طبقات الیٹ اور اشرافیہ کے ظلم اور بربریت کا شکار ہو تے ہیں۔معزز سپریم کو رٹ سے بھی استد عا ہے کہ وہ سال 2009کے جو ڈیشل پالیسی کو یقینی بنائیں اور مختلف کیسوں کے لئے جو ٹائم فریم بنایا گیاہے اسکو عملی بنائیں۔