اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں جنھیں اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے، مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدوروں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی انہی کی کی جاتی ہے ۔سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں ۔ ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے ۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کر کے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے یہ فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی نیز آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی امت کےلئے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں آپ ﷺ نے مزید فرمایا تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوں گا۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی سے کام کروایا ۔ کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اسکے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے، تو آپ ﷺنے اس کا ہاتھ چوم لیا ۔ مزید ارشاد فرمایا: مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو ۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران لاکھوں سے زیادہ نوجوان حالات سے تنگ آکر ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں ، لوگ قانونی و غیر قانونی طریقوں سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔کچھ لوگ دوسرے ممالک کی سرحد پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر بیرونی جیلوں میں گزار دیتے ہیں،کچھ سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور کچھ بارڈر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر شعبہ زندگی زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ کھانا سب سے پہلے ان لوگوں کو ملے جو بھوک سے نڈھال ہیں لیکن یہاں سب سے پہلے کھانے پر وہ ٹوٹ پڑتے ہیں جن کی پہلے ہی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔ مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھیتوں، کھلیانوں ، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے۔مقامِ افسوس یہ ہے کہ عالمی سطح پر مزدوروں کا یہ دن بڑے اہتمام کے ساتھ منا کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقہ آج بھی سرمایہ داری نظام کے زیرتسلط بری طرح پس رہا ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ موجودہ مہنگائی سے عام آدمی تو متاثر ہوا ہی ہے جبکہ مزدور طبقہ تو عملاً زندہ درگور ہو چکا ہے۔روزانہ بارہ سے 14گھنٹے کام کرنے والے مزدور کو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی جس سے وہ اپنے گھر کی کفالت کر سکے یہی وجہ ہے کہ اس طبقہ میں خودکشی کا رجحان عام ہے ۔ عالمی سطح پر مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا دن منا کر فرض پورا نہیں ہو جاتا اور نہ ہی حکومتوں کو کاغذی کارروائیوں میں انکی اجرت بڑھا کر مطمئن ہو جانا چاہیے مزدور ایک قابل رحم طبقہ ہے مہنگائی کے تناسب سے ہی انکی اجرت مقرر ہونی چاہیے اور انکے حالات بہتر بنانے کیلئے مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے’ تب ہی انکے ساتھ یکجہتی کے تقاضے پورے ہو سکیں گے۔ حالات کا یہ تقاضا ہے کہ سرکا ری سطح پر مزدور کی اجرت سونے کی ایک تولہ قیمت کے برابر کی جائے اور اسلام نے مزدو ر کے جو حقوق و اسلوب طے کئے ہیں ان پر عمل درآمد کرایا جائے اور مزدور کے حقوق کا تحفظ کیا جائے یکم مئی یوم مزدور ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔