کالم

یوکرین روس تنازعہ ، نئی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا

روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد سے اپنے کچھ فوجیوں کو واپس بلا لے گا ۔ لیکن نیٹو اور امریکی حکومت کے نمائندوں کو ڈر ہے کہ جنگ شروع ہو نے والی ہے ۔ اور ;200;ج ایسا لگتا ہے کہ جنگ شروع کردی گئی ہے کیونکہ ;200;ج روسی فوج یوکرین کے جنوب سے ملک میں داخل ہوگئی ہے لیکن روس کے صدر نے اسے جنگ نہیں کہا ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ علیحدہ پسندوں کی وہ مدد ہے جو انہوں نے ان سے مانگی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف یوکرین کے صدر نے کہا ہے کہ روس کا یہ اقدام ہمارے ملک کی ;200;زادی میں دخل ہے اور اس لیے انہوں نے یورپی برادری سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست بھی کردی ہے ۔ ۔ ۔ دوسری طرف جرمنی نے اپنے شہریوں سے یوکرین چھوڑنے کی اپیل کی ہے ۔ جرمنی سمیت دوسرے تمام یورپی ممالک اب تک جنگ کو روکنے کے لیے مذاکرات پر مذاکرات کررہے ہیں ۔ کئی ہفتوں سے اس خدشات کے بعد کہ ماسکو یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے ۔ مسلسل چند دنوں سے بہت سارے ممالک کے سربراہوں کے درمیان بات چیت ہوئی ہے، جن میں امریکی صدر جو بائیڈن کی کریملن کے سربراہ ولادیمیر پوٹن کے ساتھ، پوٹن کی جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ لیکن ان بات چیت کا ابتک کوئی بھی مثبت نتیجہ بر;200;مد نہیں ہوسکا ہے ۔ دس سال سے زائد عرصے میں پہلی بار روس نے جرمنی کے شہر میونخ میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں جو اس وقت جاری ہے، میں اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیج کر یہ ثابت کیا ہے کہ اسے عالمی برداری کی پرواہ نہیں ہے وہ وہی کرے گا جو وہ بہتر سمجھتا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب امریکہ بھی روس کی اس فوجی جارحیت کا انتظار کررہا ہے ۔ صدر بائیڈن نے جمعہ (18 فروری 2022)کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ;34;ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ موجود ہے کہ روسی فوجی اگلے ہفتے، اگلے چند دنوں میں یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ;34; ۔ ;34;ہ میں یقین ہے کہ ان کا ہدف یوکرین کا دارالحکومت کیف ہو گا، ایک ایسا شہر جو 2;46;8 ملین بے گناہ لوگوں کا گھر ہے ۔ ;34;امریکہ کا خیال ہے کہ روس نے یوکرین کے قریب 190,000 فوجیوں کو جمع کردیاہے ۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں بھی خبردار کیا ہے کہ ;34;یورپ میں دوبارہ جنگ کا خطرہ منڈلا رہاہے ۔ اور اب لگتا ہے کہ یہ خطرہ ہم سب کے لیے ایک خطرناک رسک بنتا جارہاہے ۔ جرمنی کے وفاقی دفتر خارجہ نے فوری طور پرتمام جرمنوں سے یوکرین کو چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ہےان کا خیال ہے کہ کسی بھی وقت فوجی تنازعہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ روس کو اس کے اتحادی چین کی طرف سے جزوی سرد مہری کا سامنا ہے ۔ میونخ سیکورٹی کانفرنس میں ، وزیر خارجہ وانگ یی نے نیٹو کی مشرق کی جانب مزید توسیع کے خلاف بات کی ہے ، یعنی روس کے مطالبے کی ایک طرف حمایت کرتے ہوئے یوکرین پر حملے کے خلاف بھی خبردار کیا ہے ، ان کے بقول;34;ہر ملک کی خودمختاری، ;200;زادی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ اور احترام کیا جانا چاہیے ۔ اور یہی بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصول ہیں ۔ جنگ کے کچھ سکیورٹی ماہرین غیر یقینی کا شکار ہیں کہ کیا واقعی روسی حکومت ایک جنگ کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ;238; ۔ وہ روسی فوج کی تعیناتی کو دباءو ڈالنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ روس نیٹو کے ممالک پر ان کی دفاعی اتحاد کو نئے زاویے سے بنانے کی تجاویز کو قبول کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے ۔ دوسری باتوں کے علاوہ، روس یورپ سے اس وقت تعینات تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ بھی کر رہا ہے اور ہر طرح کی سیکورٹی کی ضمانتیں بھی مانگ رہا ہے ۔ برطانیہ کو خدشہ ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو یہ انسانی تباہی ہی ہوگی ۔ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اقوام متحدہ کے سفیر نبنسیا نے تمام الزامات کی تردید کی ہے ۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے ساتھ ملاقات میں ، یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مشیل نے یوکرین کے ساتھ یورپی یونین کی مکمل یکجہتی کا اعادہ کیا ہے ۔ مشیل نے ٹویٹر پر لکھا کہ، ;34;یورپی یونین ;200;پ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور یوکرین کی علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کرتی ہے ۔ روس کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون اور قواعد پر مبنی نہیں ہے اور یہ اصل میں بین الاقوامی نظام پر حملہ ہے ۔ اقوام متحدہ میں جرمنی کے مستقل مندوب نے روس سے بات چیت کی طرف واپس ;200;نے کا مطالبہ کیا ہے ۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں شریک دیگر تمام ریاستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جرمنی کے اس مطالبے میں شامل ہوکر اس کوشش کو کامیاب بنائیں ۔ اب تو ;200;نے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا یورپی ممالک روس کا مطالبہ مانتے ہوئے جنگ بندی کرواتے ہیں یا طاقت کے زور پر ۔ اگر طاقت کا استعمال دوسری طرف سے بھی کیا گیا تو شاید یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اس سے دنیا کہیں ایک بار پھر نہ جنگ کی لپیٹ میں ;200;جائے ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے