انسانی زندگی اختلافات کا مجموعہ ہے ہماری روز مرہ کی زندگی میں باہمی اختلافات ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے یہ زندگی کا حصہ ہیں ہر انسان کو اللہ پاک نے علیحدہ علیحدہ طبیعت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطاءفرمائی ہے سب کے سوچنے کا انداز ایک جیسا نہیں ہو سکتا ہر ایک کا اپنا اپنا زاویہ نظر اور نقطہ نظر ہے ہر ایک کی سوچ مختلف ہے بعض کی سوچ آپ کی سوچ سے مطابقت کریگی بعض کی نہیں ایک ماں باپ سے پیدا ہونےوالے بہن بھائیوں کی طبیعت اور سوچیں بھی مختلف ہوتی ہیں ایک جیسی نہیں ہوتی تو پھر ہم یہ کیسے تصور کرلیتے ہیں کے دوسروں کی سوچ ہماری سوچ سے مطابقت رکھنی چاہیے زندگی میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں بہت سارے ایسے معاملات ہوتے ہیں کے باپ بیٹے کی رائے آپس میں نہیں ملتی اختلافِ رائے ہو جاتا ہے ماں بیٹی کی رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے بہن بھائیوں میں ہو جاتا ہے اگر ہم کہیں کے کسی کی بھی رائے ہماری رائے سے مختلف نہیں ہونی چاہیے تو یہ خلافِ فطرت بات ہوگی اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں لیکن اختلاف کا مطلب ہر گز خلاف نہیں ہوتا یعنی مخالفت نہیںہوتا یہ اختلاف انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ اسی ختلاف رائے کے سبب تو اہل سنت ولجماعت کے چار مذاہب حنفی ، مالکی ،شافعی اور حمبلی وجود میں آئے لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے سے انتہائی ادب و حترام اور عزت و تکریم سے پیش آتے تھے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں یہ عام بات ہے اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں لیکن معمولی اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہیے اور ایسا اختلاف جو حق و باطل میں ظلم و ناانصافی میں واضح فرق کرنے والا ہے بس ایسے اختلاف کو مد نظر رکھنا چاہئے اور حرام و ظلم کی رائے سے بچنا چاہیے اور انصاف اور حق کے ساتھ اختلاف رکھنے سے بچنا چاہئے ایسے اختلاف میں اس کی رائے حق پر ہوگی جو حق اور انصاف کے حق میں رائے رکھتا ہے اس کے مقابل کی رائے چونکہ باطل اور ظلم کے حق میں ہو گی تو یہ رائے مردود ہوگی ایسا اختلاف شریعت میں حرام ہے حرام قسم کا اختلاف چھوڑ کر باقی اختلافات عمومی ہیںجیسے اپنے گھر کی جانب دو بھائی جا رہے ہوں اور اس گھر کو راستے بھی دو جارہے ہوں دونوں راستے ایک جیسے اور بے خطر ہوں دونوں راستوں کا گھر سے فاصلہ بھی ایک جیسا ہو یعنی ایک جیسے بالکل ایک جیسے راستے ہوں اب ایک بھائی کہے کے ہم پہلے راستے سے چلتے ہیں اور دوسرا کہے کے نہیں ہم دوسرے راستے سے چلتے ہیں یہ حق و باطل میں فرق کرنے کی رائے کے علاوہ جس کی اوپر اضاحت کی گئی ہے اختلاف رائے کی دوسری قسم ہے دونوں میں سے جس کی رائے بھی مان لی جائے کوئی حرج نہیں دونوں راستے ایک جیسے ہیں اور گھر کو ہی جاتے ہیں جس کی بھی رائے مان لی جائے کوئی خرابی نہیں دونوں کی رائے قابلِ تسلیم اور قابلِ ا حترام ہے کیونکہ دونوں کی رائے درست ہے اور دونوں کو حق حاصل ہے ایک دوسر ے سے اختلافِ رائے کرنے کا تیسری قسم یہ ہے کے جب ان میں سے ایک راستہ دشواراور مسافت کے حساب سے لمبا ہوتا تو پھر دونوں رائے مختلف تھی ایک کی رائے درست اور دوسرے کی رائے غلط ہوتی اب یہاں غلط رائے رکھنے والے کی رائے کااگر تو اس نے بد نیتی سے دی ہے اور اس کو اس راستے کا علم بھی تھا کے یہ دوسرے راستے کی نسبت دشوار گزار اور لمبا ہے تو اس کی رائے قابلِ تسلیم تو نہ تھی اب قابلِ احترام بھی نہ رہے گی اور اگر اس کو دوسرے راستے کی دشواری اور مسافت کے زیادہ ہونے کا علم نہ تھا اور اس کی اس رائے کے پیچھے حسن ظن تھا کسی قسم کی بد نیتی نہ تھی تو اب چاہے اس کی رائے غلط ہونے کی وجہ سے قابلِ تسلیم نہ ہے لیکن حسن ظن کی وجہ سے قابلِ احترام ضرور ہے اب جب راستے ایک جیسے تھے تو دونوں کی رائے مثبت تھی دونوں کی رائے قابلِ احترام اور قابلِ تسلیم تھی لیکن جب ایک راستہ دوسرے سے مختلف ہو گیا اور ایک آسان اور دوسرا دشوار گزار ہو گیا تو اب دونوں میں سے ایک کی رائے منفی ہو گئی اور ایک کی مثبت اور اب منفی رائے اگر تو علم رکھنے کی باوجود بد نیتی سے دی گئی تو قابلِ تسلیم نہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ احترام بھی نہ رہے گی لیکن اگر حسن ظن حسن نیت یعنی نیک نیتی سے دی گئی تھی تو رائے کے غلط ہونے کے باوجود قابلِ احترام رہے گی یہ شریعت کا حسن ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلِ وسلم کا فرمان ِ عالیٰ شان ہے کے جس شخص نے اجتہاد کیا اور صحیح پہنچا تو اسے دوہرا ثواب ہے اور اگر غلطی بھی کر گیا تب بھی ایک ثواب ضرور ہے کیونکہ اس نے نیک نیتی اور حسن ظن سے اپنی علمی و عقلی استداد کے مطابق اجتہاد کیا اور جس نتیجے پر پہنچا اپنی طرف سے وہ اسے حق جان کر ثواب کی نیت سے عمل پیرا ہو گیا ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے اندر ایک دوسرے سے رائے و مشورہ کرنے کی توفیق چھین لی گئی ہے قرآن پاک میں کسی کام کرنے سے پہلے باہمی مشورے کا مشورہ دیا گیا ہے تا کہ منفی پہلوﺅں کا خطرہ کم ہو جائے لیکن ہم اس کے الٹ کرتے ہیں اگر ہماری رائے سے سامنے والے کی رائے تھوڑی سی بھی ٹکرا جائے تو ہم عدم برداشت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے عفوو درگزر کرنا چاہیے اپنے اندر دوسروں کا احساس پیدا کرنا چاہیے مسلمان ہونے سے پہلے ایک اچھا انسان بننا چائیے یہی ہمارا دین ہمیں درس دیتا ہے جب تک ہم ایک اچھا انسان نہیں بنیں گے تب تک ایک اچھا مسلمان کیسے بن سکتے ہیں۔