کالم

اسلامی نظام ِحکومت میں نظامِ عدل

گزشتہ سے پیوست
ایک بار چیف جسٹس کا اردلی کسی شخص کو
کوڑے مارتا ہے۔ مضراب ان کی عدالت میں استغاثہ دائر کرتا ہے۔ جسٹس شریح اردلی کو مضروب کے ہاتھوں کوڑے لگواتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے خاندان کا ایک فرد کسی شخص پر ناروا ظلم کرتا ہے۔ جسٹس شریح خاندان کے اس شخص کو ایک ستون کے ساتھ بندھوا دیتے ہیں۔ عدالت برخواست ہوتی ہے تو وہ خاندان کا آدمی جسٹس شریح کو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ مگر شریح یہ کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں کہ مجھ سے کہنے سننے کی حاجت نہیںتمھیں حق نے قید کیاہے۔ ایک مرتبہ اس کے بیٹے کی کسی سے تنازع ہو جاتا ہے۔ بیٹا شریح سے معلوم کرتا ہے کہ عدالت تب جاﺅں اگر کامیابی کی امید ہو ۔ شریح مشورہ دیتے ہیں عدالت مقدمہ دائرکرو۔ مقدمہ جسٹس شریح کے پاس پیش ہوتا ہے۔شریح بیٹے کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں ۔بیٹا ان سے معلوم کرتا ہے کہ آپ کے مشورے سے تو میں نے مقدمہ دائر کیا تھا اور آپ نے میرے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ اس طرح مجھے ذلیل وخوار کیا۔ جسٹس شریح کا جواب انصاف کی تاریخ آپ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کہتے ہیں جان پدر! تم مجھے دنیا جہاں عزیز ہو لیکن اللہ مجھے عزیزتر ہے۔ مجھے ان لوگوں کا حق نظر آیا تھا اگر میں تمھیں بتا دیتا تو تم صلح کر لیتے اور یوں اں کا حق مارا جاتا۔ رشوت بھی حق و عدل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ رشوت کی ایک مہذب صورت ہدیہ اور و تحائف ہیں۔ لوگ ہر دور میں اس سے بھی عدالتوں سے فائدہ اُٹھتے رہے ہیں۔ جسٹس شریح ہدیہ تو قبول کر لیتے مگر ہدیہ دینے والے کو واپس ہدیہ دے دیتے تھے۔بعض دفعہ جج لوگ فریب میں آجاتے ہیں۔ جسٹس شریح بے حد دقیقہ رس تھے اور مقدمے کی ظاہری حالت سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ ایک عورت ایک دفعہ ایک مرد کے خلادف مقدمہ دائر کرتی ہے۔ عدالت میں آتی ہے زار قطار رونے لگتی ہے۔ امام شعبیؒ بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہ جسٹس شریح سے کہتے ہیں یہ عورت مظلوم معلوم ہوتی ہے۔ شریح کہتے ہیں رونا مظلومیت کا ثبوت نہیں۔ یوسف ؑکے بھائی بھی باپ کے کے پاس روتے تھے۔ جسٹس شریح مقدمے کی گہرائیوں میں اُترتے اور شہادتوں کو خوب جانچتے پرکھتے تھے۔ تاہم مقدمے کا انحصار شہادتوں پر ہوتاے، اس لیے جب دیکھتے کہ گواہ مشکوک ہیں مگر ان کی ظاہری صداقت پر گرفت نہیں کی جا سکتی تو گواہوں سے کہتے تھے کہ میں نے تمھیں طلب نہیں کیا تم جانا چاہتے ہو تو میں نہیں روکتا، تمھاری گواہی سے میرا دامن محفوظ ہو جائے گا۔ تب بھی اپنے آپ کوبچاﺅ اگر گواہ جھوٹی گواہی سے پھر بھی باز نہیں آتے تو چونکہ جج کسی گواہ کو شہادت دینے سے نہیں توسکتا۔ اس لیے جسٹس شریح مجبور ہوکر اس کی شہادت پر فیصلہ کر دیتے۔ تاہم جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوتا اس سے کہہ دیتے تم اس معاملے میں ظالم ہو۔ لیکن مقدمے کا فیصلہ اپنے خیال و گمان پر نہیں ثبوت کے مطابق کرنا تھا۔ اس لیے یہ بات اپنی جگہ رہ جاتی ہے کہ جو چیز خدا نے تم پر حرام کی میرا فیصلہ اسے حلال نہیں کر سکتا۔یہ ہے اسلامی نظام ِحکومت میں ایک جسٹس کی عدل و انصاف کی ایک جھلک!
ختم شد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri