کالم

اشفاق احمد ایک عہد ایک تاریخ

rohail-akbar

معروف ادیب اشفاق احمد کی 18 ویں برسی 7ستمبر کو منائی گئی جس میں اشفاق احمد کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیاگیااشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو انتقال کر گئے تھے۔ افسانہ نگار ونثر نگار،مصنف، ریڈیو پاکستان کے مشہور کردار ”تلقین شاہ“ سے شہرت حاصل کرنے والے اشفاق احمد 22 اگست 1925ءکو پیدا ہوئے انہوں نے لاہور کے علاوہ اٹلی،فرانس اور نیویارک کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اشفاق احمد کا شمار سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر کے بعد ادبی افق پر نمایاں رہنے والے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے اپنے ایک مشہور افسانے ”گدڑیا“ سے غیر معمولی شہرت حاصل کی اس کے علاوہ ایک محبت سو افسانے،من چلے کا سودا،سفر در سفر،کھیل کہانی،طوطا کہانی اور دیگر ان کی معروف تصانیف ہیں۔اشفاق احمد نے زندگی کا بیشتر حصہ ریڈیو پاکستان میں گزاراانہوں نے 1965ءمیںریڈیو پاکستان لاہور سے ایک فیچر پروگرام کا آغاز کیا جس کا اہم ترین کردار ”تلقین شاہ“ اشفاق احمد نے ادا کیا عوام کو تلقین شاہ کا مخصوص لہجہ اور دھیما پن ملک کے دور دراز قصبات اور دیہاتوں میںآج بھی یاد کیا جاتا ہے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز کے ایوارڈز سے نوازا گیااردو ادب کا یہ عظیم افسانہ نگار 7ستمبر 2004ءکو 79برس کی عمر میں اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا۔اشفاق احمد کی باتیں ہماری آج کی نوجوان نسل کے لیے سرمایہ ہیں انکا کہا ہوا ایک ایک لفظ سنہرے حروف میں لکھ کر عوامی مقامات پر لگا دینا چاہیے تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ ہمارا اور دنیا کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہم وہ جاہل اور گنوار قوم ہیں جو اپنے استاد کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں انہیں وہ مقام ہی نہیں دے سکے جنکے وہ حق دار ہیں تنخواہیں کم اور ترقیاں عرصہ دراز سے رکی ہوئی ہیں اساتذہ کو الیکشن ڈیوٹی لگانے سے آخری ووٹ کاسٹ ہونے اور پھر ڈبے الیکشن کمیشن کے دفتر تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مردم شماری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اشفاق احمد بطور استاد اپنا ایک قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ روم (اٹلی) میںمیرا چالان ہوا مصروفیت کے باعث فیس وقت پر جمع نہ کروا سکا عدالت جانا پڑا جج کے سامنے پیش ہوا تو تو اس نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ پروفیسر ہوں مصروف ایسا رہا کہ وقت ہی نہ ملا اس سے پہلے کہ میں بات پوری کرتا جج نے کہا کہ ایک استاد عدالت میں سب کھڑے ہوگئے اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان کینسل کردیا اس روز میں انکی ترقی کا راز جان گیا جبکہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے جاہل پیدا ہورہے ہیں اشفاق احمد عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے انہیں علم تھا کہ ہمارے اعمال کیا انکا کہنا ہے کہ ڈگریاں درحقیقت تعلیمی اخراجات کی رسیدیں ہیں ورنہ علم تو وہی ہے جو عمل سے ظاہر ہو اشفاق احمد ایک بلند پایہ مصنف، ڈرامہ نگار اور براڈکاسٹر تھے ان کی تخلیقات میں پاکستان کے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے ناول، مختصر کہانیاں اور ڈرامے شامل تھے پاکستان کے نشریاتی اور ادبی ورثے کے شعبے میں ان کی لازوال خدمات پر انہیں صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز (اسٹار آف ایکسیلنس) کے اعزازات سے نوازا گیا اشفاق احمد 22 اگست 1925 کو مکتسر بھارتی پنجاب میں مہمند قبیلے کے ایک نسلی پشتون خاندان میں پیدا ہوئے انکی ابتدائی تعلیم مکتسر میں ہوئی 1947 میں تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہو گئے تھے انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی پاکستان کی نامور مصنفہ بانو قدسیہ گورنمنٹ کالج میں ان کی ہم جماعت تھیں اشفاق احمد پنجابی، اردو، انگریزی، اطالوی اور فرانسیسی زبان بول سکتے تھے لڑکپن ہی سے آپ نے کہانیاں لکھنا شروع کردی تھی جو بچوں کے میگزین پھول (پھول) میں شائع ہوئیں یورپ سے پاکستان واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنا ماہانہ ادبی رسالہ، داستان گو (کہانی سنانے والا) نکالا، اور ریڈیو پاکستان میں بطور سکرپٹ رائٹر شامل ہوئے انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے مشہور شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی جگہ اردو کے مشہور ہفت روزہ لیل و نہارکا ایڈیٹر بنایا گیا 1962 میں اشفاق احمد نے اپنا ریڈیو پروگرام تالقین شاہ شروع کیا جس نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا انہیں 1966 میں مرکزی اردو بورڈ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جسے بعد میں اردو سائنس بورڈ کا نام دیا گیا یہ عہدہ 29 سال تک انکے ہمرکاب رہا ضیاءالحق کے دور میں وزارت تعلیم میں مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں انکے ریڈیو کے دو مشہور پروگرام تلقین شاہ (1962) اور بیٹھک تھے جبکہ ٹیلی ویژن پر بھی انہوں نے کمال کے ڈرامے پیش کیے انکے جنہیں دیکھنے کےلئے دیہاتوں میں ٹریکٹر کی بیٹری پر ٹی وی لگا کر پورا پنڈ دیکھا کرتا تھا لوگوں کو ابھی تک ان ڈراموں کے کردار اور بول یاد ہیں انکے مشہور ٹی ڈراموں میں اچھے برج لاہور دے ،ٹالی تھلے،طوطاا کہانی،ایک محبت سو افسانے ، من چلے کا سودا ، گڈریا،اُجلے پھول، سفرِ مینا، ٹاہلی تھلے،مہمان بہار ، وداعِ جنگ، چنگیز خاں کے سنہری شاہین، کھٹیا وٹیا ، قمکار،گرما گرم، ہفت زبانی لغات،دوسروں سے نباہ،ایک ہی بولی،سہانے فسانے،بند گلی،مہمان سرائے، بابا صاحبا،سفر در سفر، اُچے بُرج لاہور دے ، طلسم ہوش افزا ، ننگے پا¶ں،حسرت تعمیر، جنگ بجنگ،ایک محبت سو ڈرامے،حیرت کدہ،شاہلا کوٹ، کھیل تماشا،گلدان، دھینگا مُشتی، شورا شوری، ڈھنڈورا،عرضِ مصنف , فنکار اور مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت نمایاں کتب اور ڈرامے ہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر اشفاق کی زندگی میں تصوف سے لگن بڑھتی گئی 7 ستمبر 2004 کو اشفاق احمد لبلبے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئے انہیں ماڈل ٹا¶ن لاہور میں سپرد خاک کیا گیا اشفاق احمد ایک عہد اور تاریخ ساز شخصیت تھے جن کی وفات سے پاکستان کی ادبی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا وہ کسی طور بھی پورا نہیں ہورہا کیونکہ ان کی ترجیحات میں ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے