جمہوریت کے بارے میں اقبال کے کلام میں ملے جلے خیالات پائے جاتے ہیں۔وہ جمہوریت کے بعض پہلو¶ں کو پسند کرتے ہیں۔ اور بعض کو ناپسند -یوں تو جمہوریت کی کوئی معین شکل ابھی تک مکمل نظام کی حیثیت سے سامنے نہیں آئی اور ہر ملک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اسے اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔لیکن اس کے باوجود جہاں تک بنیادی تصور کا تعلق ہے ‘اس بارے میں سب متفق ہیں۔ بقول ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: ”جمہوریت کا عام ترین مفہوم یہ ہے کہ رعا یا پر کوئی فرد یا کوئی طبقہ اس کی مرضی کے خلاف حکومت نہ کرے۔ ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق حکومت عوام کی ہو ‘ اور عوام کے لئے ہو اور رفاہ عامہ اس کا مقصود ہو۔اقبال کو مغربی جمہوریت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ ملوکیت کی حامی ہے اور اسے تقویت پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ ملوکیت میں فردِ واحد حاکم مطلق ہوتا ہے۔ اور جمہوریت میں سارا انتظام چند افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے دونوں صورتوں میں یہ حاکم اپنے اغراض و مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں۔ اور عوام کے حقوق کی پروا نہیں کرتے ملوکیت اور جمہوریت دونوں جبروتشدد کو کام میں لا تی ہیں۔ حصول زر ان کا مطمع نظر ہوتا ہے اور محکوم رعایا کو خواب خرگوش میں مبتلا رکھنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہ کرسکیں۔ اقبال کو مغربی طرز کی جمہوریت پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اس کے ذریعے قوم کے بہترین افراد مجالس آئین ساز میں داخل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی قوم کی باگ دوڑسنبھال سکتے ہیں اس طرز حکومت میں قابلیت کا اندازہ نہیں لگایا جاتا بلکہ صرف ووٹوں کی کثرت تعداد سے ایک شخص کو منتخب کرلیا جاتا ہے ضروری نہیں کہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا کم ووٹ حاصل کرنے والے سے زیادہ قابل ہو۔ڈاکٹر یوسف حسین خان اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اکثریت کا فیصلہ جو اخلاق کے خلاف ہو محض اس لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ زیادہ تعداد اس کے موافق ہے۔ جمہوریت کا بڑا عیب جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا،یہ ہے کہ وہ شمار کرنا تو جانتی ہے لیکن وزن کرنا نہیں جانتی جس کے بغیر ہیت اجتماعیہ میں عدل و انصاف قائم نہیں رہ سکتا ” اقبال کو جمہوریت پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اخوت کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔ ”خضر راہ” میں خضر کا پیغام یہی ہے کہ مغربی جمہوریت اور مغربی تہذیب نے انسانیت کےلئے کچھ نہیں کیا۔ جمہوریت نہ تو نسلی تعصب کو مٹا سکی اور نہ قومیت کے محدود دائرے سے باہر نکل سکی۔ اس نے عالمگیر اخوت اور بھائی چارے کا اعلیٰ نصب العین بھی حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جدید جمہوریت عوام کو اظہار رائے کا حق تو دیتی ہے لیکن انہیں یہ حق نہیں دیتی کہ وہ معاشی مساوات بھی قائم کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ بغیر معاشی مساوات کے رائے دہی کا یہ حق کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مملکت کا یہ مقصد نہیں ہونا چاہیے کہ وہ صرف دولت مندوں کو ہی اقتدار کا مالک بنائے بلکہ اس کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ قوم کے بہترین افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے۔ موجودہ طرز کی جمہوریت میں یہ کوشش کہیں سرگرم عمل نظر نہیں آتی اور اس پر اقبال کا اعتراض ہے ۔ اقبال صرف اس جمہوری نظام کو پسند کرتے ہیں جو اسلام نے پیش کیا خلیفہ عبدالحکیم کہتے ہیں اسلام نے جو نظام قائم کیا وہ بھی ایک خاص انداز کی جمہوریت تھی اس کا دستور عوام کی رائے سے مرتب نہ ہوا تھا بلکہ ازروئے وحی خدائے علیم و حکیم کا تلقین کردہ تھا، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی تھا ، سیاست اور معیشت کے بنیادی اصول واضح اور معین تھے لیکن بدلتے ہوئے حالات میں ذیلی اور فروعی آئین مشیران خلافت کی رائے کے مطابق وضع ہوتے تھے امیر خلافت مسلمانوں کی رضا مندی سے منتخب ہوتا تھا انتظام سلطنت میں وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا تھا لیکن اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگرانی تھی وہ شرعی حدود کے باہر قدم نہ رکھ سکتا تھا اسلام نے شاہی اور امرا ئی حکومت کو منسوخ کر دیا تھا اور یہ اصول مقرر کر دیا تھا کہ حکومت مسلمانوں کے مشورے سے ہونی چاہیے تمام رعایا کے بنیادی حقوق مساوی تھے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی ۔دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر شخص آزاد تھا غیر مسلموں کے قوانین شریعت اور طریق زندگی میں حکومت مزاحم نہ ہو سکتی تھی۔ رعایا کا غریب سے غریب پر امیر المومنین پر نالش کرسکتا اور عدالت میں اسے جوابدہی پر مجبور کر سکتا تھا اس جمہوریت میں حکمرانوں کا کوئی طبقہ نہ تھا ہر طرح کی آزادی ضمیر تھی۔ مملکت رفاہی مملکت تھی جس کے اندر عمرفاروق جیسا جلیل القدر انسان راتوں کو گشت کرکے دیکھتا تھا کہ کہیں ظلم تو نہیں ہورہا ہے کسی غریب کے گھر میں فاقہ تو نہیں اگر کوئی غریب گھرانہ نان شبینہ کا محتاج ہوتا دکھائی دیا تو بیت المال سے اپنی پیٹھ پر لاد کر سامان خور و نوش معذرت کے ساتھ وہاں پہنچا دیا اگر کسی امیر یا گورنر نے کسی غریب زمین پر بھی زرہ بھر ظلم کیا تو عمر کے درے اس پر برسر عام برس گئے یہ تھی مساوات حقوق اور عوام کی حکومت عوام کےلئے اقبال کو یہ صورت کہیں نظر نہ آتی تھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں ممالک اسلامیہ میں اور نہ فرنگ میں وہ جمہوری نظام چاہتا تھا جہاں خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی اساسی ضروریات عام ہو جہاں حکمران علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہو اور درویش منش ہو خوشامد،جبر، یا زرپاشی سے عوام سے اپنے حق میں ووٹ کے طالب نہ ہو اسی وجہ سے اقبال کو مغربی جمہوریت پسند ہے اور نہ اشتراکی جمہوریت وہ ان سب کو ناقص سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اگر جمہوریت کے سب تقاضے کوئی نظام پورا کر سکتا ہے تو وہ اسلام ہے معاشی اور معاشرتی مساوات اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی حریت فکر اور آزادی ضمیر رفاہی مملکت کا قیام رنگ و نسل سے بالاتر دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے دینا حاکموں کا عوام کی مرضی سے چنا جانا اور ان کا رعایا کے سامنے جوابدے ہونا اگر دنیا میں کسی نظام نے عملی شکل میں نافذ کر دکھایا ہے تو وہ صرف اسلام ہے اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال کے نزدیک جمہوریت کی حقیقی روح کو صرف اسلام نے ہی پیش کیا ہے دنیا کے کسی اور نظام حیات نے نہیں۔ اس حوالے سے اقبال کی شاعری پیش خدمت ہے
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
اس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیزی سے تاریک تر
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
کالم
اقبال کی نظرمیں جمہوریت
- by web desk
- دسمبر 3, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 58 Views
- 2 دن ago