کالم

الیکشن بار کے ہوں یا قومی ،بغیر پیسوں کے لڑنا نا ممکن

ملک بھر میں وکلا بار میں ہر سال باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں۔ اسی طرح ملک بھر کی بار کونسلوں میں بھی اپنے وقت مقرر پر وکلا کےالیکشن ہوتے ہیں۔ ان الیکشن میں امیدوار بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔اب وکلا بار کے یہ الیکشن لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتے ہیں۔جس پر سوال اٹھتے ہیں کہ جیت کے بعد ان امیدواروں کو نہ تو پرکشش تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں۔ پھر بھی یہ اتنا پیسہ وہ بھی ایک سال کے لیے الیکشن پر کیوں لگاتے ہیں؟ بظاہر تو ان الیکشنوں کا مقصد وکلا کی ویلفیر کرنا ان کیلئے آسانیا ں پیدا کرنا اور ان کی عزت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔بنچ اور بار کے تعلقات میں مضبوطی لانا ہوتا ہے۔اپنی اس جذبے خدمت کے لئے امیدوار سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں ۔پیسے کو پانی کی طرح بہاتے ہیں۔کچھ تو اتنا پیسہ لگاتے ہیں جو انہوں نے اپنے ولیمہ میں نہیں لگایا ہوتا۔ بعض تو کہا جاتا ہے قرض لے کر الیکشن میں کھود پڑتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جن کے پاس قانون کی ڈگری ہی نہیں ہوتی جعلی وکیل بن کر وکلا میں پیش پیش رہتے ہیں۔پھر یہ الیکشن بھی لڑتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور بار کے نمائندے بھی بن جاتے ہیں جبکہ عہدے داروں کا کام یہی ہوتا ہے کہ بار میں موجود وکلا کی ایسی کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں جو جعلی ہیں، مگر یہ خود اس رنگ میں رنگ جاتے ہیں ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتے۔اپنے پیشہ وکالت کو عزت نہیں بخشتے ۔وکلا نمائدے وکلا کی ویلفیر ان کی بہتری ان کے نام کی عزت کا خیال انہیں رکھنا چاہے کچھ رکھتے بھی ہیں ۔ اکثر وکلا نمائدے جیت کے جو الیکشن پر خرچ کر چکے ہوتے ہیں وہ پورے کرنے میں سال گزار دیتے ہیں یا جس کی اپنی زات میں جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ دور کرنے میں لگ جاتے ہیں جو کچھ بنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔کہا جاتا ہے اگر کوئی نمائدہ لاکھوں لگتا ہے تو وہ پھر کروڑں بناتا بھی ہے۔جس کو ملکی سیاست میں انے کا شوق ہوتا ہے وہ سیاسی لیڈروں کی خدمت کرنی شروع کرتا ہے۔ بنچ اور بار کا جب کوئی پروگرام ہو تو وکلا کے نمائندے بجائے ساتھی وکلا کو اٹھا کر پلیٹیں دیں کھانے پیش کریں، وکلا کی پلیٹوں میں کھانا ڈالیں وہ بنچ کی طرف لپکتے ہیں ۔ ججوں کے اگے بچھ جاتے ہیں۔ وکلا بے بچارے سارا سال اپنے نمائدوں کو ایسا کرتے دیکھ کر حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ گروپوں میں بہت کم ایسے ہیں جو میرٹ پر وکلا کے نمائندوں کو ٹکٹ دیتے ہوں ۔میرٹ پر امیدواروں کو کھڑا کرتے ہوں۔ یہ ان وکلا کے حالات ہیں جو اپنے اپ کو ملک کی کریم کہلاتے ہیں۔اگر کوئی ان پر تنقید کرے تو اپنے ہی فنگشنوں میں ایسے ساتھی کو شامل نہیں کرتے جو انکو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسے سٹیج مائک کے قریب انے نہیں دیتے۔گروپوں میں بھی بعض جگہ مافیا کے لوگ چھائے ہوئے ہیں ۔ جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کرنے کا فن جانتے ہیں۔ اب وکلا بار کی سیاست میں پیسے کا رول بہت بڑھ چکا ہے۔ پیسہ ایسی چیز ہے جس سے ہزار خامیاں چھپ جاتی ہیں۔ لیکن پیسے سے انسانی کردار چھپانے سے نہیں چھپتا۔ اس کی اپنی عادات اس کی اصلیت کو ظاہر کر دیتی ہیں ۔اس کے علاوہ سب پیمانے انسان کو جاچنے کے نا کام ہو چکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں امیدوار لیکن سال کا عرصہ کافی ہوتا امیدواروں کو سمجھنے کیلیے۔اگلے الیکشن میں ووٹر اس کا جواب ووٹ کی شکل میں دیتے ہیں۔ جب تک پیسے کو الیکشن سے نہیں نکالیں گے بہتری نہیں لا سکتے۔ وکلا سوسائٹی کو وجود میں آئے ہوئے سات سال کاعرصہ ہو چکا ہے مگر ابھی تک معاملہ لٹکا ہوا ہے۔جو باعث شرم ہے۔ سارا سال بلیم گیم کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارے سارے ملک کے الیکشنوں کا ہے۔ جب تک میرٹ پر امیدوار نہیں لائیں گے ان سے بہتری کی امید نہ رکھ سکتے۔ بعض اوقات قسمت سے بھی کوئی اچھا امیدوار مل ہی جاتا ہے اور جیت بھی جاتا ہے۔ ہر جیتا ہوا امیدوار اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ بار کی لابی میں تصویر بھی چھوڑ جاتا ہے جسے دیکھ کر اچھے کردار کے مالک وکلا کو وکلا اچھے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس پر اچھا تبصرہ بھی کرتے ہیں اور برے کردار کے مالک وکلا کو برے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ جیتنے والا امیدوار ووٹ سے جیتا ہے۔ اس لیے انہیں چائے کہ جیت کر وکلا برادری کے لیے ہی کام کیا کریں نہ کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کو کندھا دیتے میں سارا سال گزار دیں۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک کریں، اپنے اوپر پارٹی کا لیبل لگا کر سال گزار کر وکلا کے دلوں سے اتر جاتے ہیں۔ہوسکتا ہے ایک پارٹی اپ کے کام آئے اپ کو اپنے کندھے پر بٹھائے مگر ایسا کرنے سے اپنے انے والے وکلا کے لیے مشکل حالات پیدا کرجاتے ہیں۔ یاد رکھا کریں جب تک آپ وکلا کے نمائندے ہوتے ہیں کسی ایک جماعت کو کندھا نہ دیا کریں۔۔ ایسا کرنے سے نقصان وکلا گروپ کو اٹھانا پڑتا ہے۔دوسرا یہ اپنے مخلص ساتھیوں کو پروموٹ کیا کریں نہ کہ کسی تھانے کے محرر کو اسٹیج پر بلا کر اسے داد دیں۔ اگر اپنوں سے مشورہ کیاہوتا تو شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔ وکلا منع کرتے رہے کہ ایک ہی جماعت کے نمائندے نہ بنیں ۔ جن وکلا پر الزامات لگاتے رہے ان کے خلاف قانونی جاری جوءبھی کرتے تو کیا بات تھی انہیں اپنی کارکردگی دکھانے اور دوسروں کی خامیاں بتانے کے لیے سپریم کورٹ بار میگزین کا مشورہ دیا تھا مگر میگزین لانے میں ناکام رہے جنھوں نے بار کو بدنام کیا ۔ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ان کی پیروی کرتے۔تو اچھا ہوتا یہ وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے اس سال ایک گروپ الیکشن ہارا۔جو پچھلے سال اقتدار میں تھا۔ جبکہ بار روم کی حالت بدل دی اسے خوبصورت بنایا لیکن اس کے باوجود گروپ الیکشن ہارا۔ہارنے کے بعد کیا مجال کے گروپ نے یا کسی نے سوچ بچار کےلیے کوئی میٹنگ کی ہو۔ جبکہ اس سال بار کا نقشہ ہی بدل دیا تھا لیکن بار کے ووٹرز نے بار کی خوبصورتی کے نمبر بھی نہ دئے۔ایسا کیوں ہوا لیکن کسی کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں ملا لہذا اپنے طور پر اپنے ساتھی وکلا کی رائے بیان کر دی ہے۔ آپ رائے دیں کہ کیا کیا جائے کہ بغیر پیسوں والے سفید پوش وکلا بھی الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ایسا ہی حال ملک کے جنرل الیکشن کا ہے ۔ میڈیا کہتا ہے ہمارے ہاں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتے ہیں۔ اسوقت جنرل الیکشن کے ہونے میں ایک ماہ کا عرصہ ابھی باقی ہے۔مگر ملک میں بے یقینی کی فضا قائم ہے۔ایسے میں سینٹ میں قرارداد پاس ہو چکی ہے کہ الیکشنوں کو منسوخ کریں۔یہ شیشے پر لکیر کسی نے ڈالی ہے۔ اس سے پہلے پھتر پر لکیر تھی کہ اسی تاریخ کو الیکشن ہونگے۔الیکشن نہ کرانے سے بے چینی بڑے گی۔حالات خراب ہونگے۔ اگر ملک کی عدالتوں سے عوام کو انصاف مل رہا ہوتا کام کر رہی ہوتی تو الیکشن نہ بھی ہوتے تو کوئی اس کی پرواہ نہ کرتا۔ اب اگر الیکشن ہو بھی جاتے ہیں تو ہارنے والے , میں نہ مانو کی رٹ لگانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس سے بھی حالات خراب ہونگے۔ یعنی اگرالیکشن ہوجاتے ہیں اور نہیں بھی ہوتے تو دونوں صورتوں میں ملکی حالات خراب کرنے کی سازش ہو رہی ہیں۔ نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر ہماری جوڈیشری پر انگلیاں آٹھ چکی ہیں۔ سپریم کورٹ میں سوائے سیاسی کیسوں کے عام ادمی کے کیسوں کی سنوائی نہیں کرتے ۔ چھٹیاں کرتے ہیں کام نہیں کرتے۔ اور نہ ہی اس کا حل نکالتے ہیں کہ عام کیسوں کو کیسے سنا جائے۔ یہ بھی پچھلوں کا گند صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی ان قوتوں کی منشا لگتی ہے جو نہیں چاہتے کہ ملک میں لوگوں کو انصاف ملے امن ہو ۔ کہا جاتا ہے سینٹ کی قراداد بھی سازش کا حصہ ہے۔ کچھ قوتیں چائتی ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام ادارے وینٹیلیٹر پر رہیں۔ بد نام ہوں۔جو کسی نے سینٹ میں قرارداد پیش کی پھر پاس کرائی اس کا پتہ چلانا ضروری ہے کہ یہ کس کی سازش شرارت پر سینٹ سے پاس ہوئی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہہ چکے ہیں الیکشن کی تاریخ پتھر پر لکیر ہے۔ اس کے باوجود الیکشن کو ملتوی کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ملک میں کافی عرصے مسنگ پرسن کا شور ہے۔ادارے اس کا سراغ نہیں لگا سکے کہ ایسا کون کرتا ہے اورکیوں کرتاہے۔ ایسا کرنے والے خدا کو کیا جواب دیں گے۔ اس احتجاج پر سردی میں ان پر سرد پانی پھیکنا گیا۔ اس سے بہتر تھا ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے کیا یہ ایسا کرنا انسانیت کی توہین نہیں ہے۔یہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے یہاں قانون کی بالادستی نہیں ہے یہ لوگ قانون سے ڈرتے نہیں اور نہ ہی خدا سے یہ ڈرتے ہیں ۔ یہ پتہ لگائیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔جب تک ملک کے فیصلے ملک کے اندر سے نہیں ہونگے یہ سازشیں یوں ہی ہوتی رہیں گیں۔اگر ملک کی تمام جماعتیں ایشو پر بات کررہی ہوتی اور اپنے مخلص ورکروں کا خیال رکھ رہے ہوتی اور انہیں پارٹی ٹکٹ دے رہے ہوتی تو جمہوریت کی گاڑی چلتی رہتی مگر یہاں تو پارٹی ٹکٹ ان امیدواروں کو دیئے جاتے ہیں جو رشتہ دار ہیں یا پھر پیسے والے ہیں جواچھے کردار کے مالک بھی نہیں ہیں تو ان حالات میں جمہوریت کی گاڑی ایسے امیدواروں کے ساتھ کیسے چل سکتی ہے یعنی الیکشن بار کے ہوں یا قومی الیکشن اگر اچھے کردار اچھی سمجھ بوجھ کے مالک سفید پوش لوگوں کو ٹکٹ دیا کریں گے تو خوشگوار تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ نہیں , دشمن کا ایجنڈا یہی ہے کہ جنرل الیکشن ہوں یا نا ہوں ملک میں افراتفری قائم رہے گی۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri