کالم

الیکشن مئی میں ہو سکتے ؟

پی ڈی ایم کی حکو مت عمران خان کے اسمبلیوں سے باہر آنے کے اعلان کے بعد پھنس گئی ہے اور جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت حال سے دوچار ہیں اگلے روز آصف زرداری ،رانا ثنااللہ،ایازصادق اور قمر زمان قائرہ کا ایک ہی دن ایک ہی چینل کو انٹرویو اور گفتگو جہاں تضادات سے بھر پور تھی وہاں اضطراب اور مایوسی بھی چھپائے نہیں چھپتی تھی ۔ایاز صادق اور آصف زرداری کو جہاں پرویز الہٰی سے دوریاں کم کرنے اور مختلف آفرز کے ذریعے رام کرنے کی ایک امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہاں کے پی کے اور پنجاب میں عدم اعتماد کے لئے گمراہ ارکان کو راہ راست پر لانے کا مفروضہ بھی زیر غور ہے لیکن ارکان کا آرٹیکل 63اے کے تحت ڈی سیٹ ہونے کا خطرہ شاید ان کی امیدوں کو بار آور ہونے سے روکے ہوئے ہے ۔ جبکہ رانا ثنا اللہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے گورنر راج لگانے سے تو رہے تاہم وہ تحریک عدم اعتماد اور ووٹ آف کانفیڈینس کے آپشن کو رد نہیں کرتے ۔ادھر قمر زمان قائرہ الیکشن چار ماہ پہلے ہو نے کو برا نہیں جانتے بس ان کو اعتراض ہے کہ عمران خان مل بیٹھنے کےلئے شرائط کے بجائے مطالبات پیش کریں تا کہ ہم بھی کچھ اپنی باتیں منوا سکیں۔جس سے رانا ثنا اللہ بھی متفق ہیں لیکن وہ اس وقت فریسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جب عمران خان کہتے ہیں چوروں ڈاکوﺅںکےساتھ نہیں بیٹھوں گا۔مجبوری میں پی ڈی ایم اس بات پر اپنی خفگی مٹانے کےلئے متفق ہے کہ اگر عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو وہ ان صوبوں میں الیکشن کروا دیں گے جو کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں۔ادھر عمران خان جو اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا عندیہ دے کر پی ڈی ایم کے جذبات سے کھیلنے کا مزہ لینے کے ساتھ ساتھ مکمل صحت یابی کے منتظر ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ۔۔
جیت گئے تو کیا کہنے
ہارے بھی تو بازی مات نہیں
ادھر وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے مونس الہٰی کے ہمراہ عمران خان سے ملاقات کر کے ایک بار پھر پی ٹی آئی کا بھر پور ساتھ دینے کا مصمم ارادہ برقرار رکھا ہے بلکہ مونس الہٰی نے ساتھ سے بڑھ کر جان دینے کا بھی عندیہ دے دیا ہے ۔کہ اس کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں ہے۔جبکہ پی ٹی آئی بھی دبے لفظوں میں اس لئے بھی ٹائم گین کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تا کہ جاری ترقیاتی اسکیمیں جہاں پا یہ تکمیل کو پہنچا سکیں وہاں حکومت کو ایسا ٹائم فریم دیا جا سکے کہ ان کے پاس عام انتخابات کروانے کے سوا کوئی راستہ نہ بچے ۔ میری رائے کے مطابق پی ٹی آئی ایک دو ماہ تک لے جاسکتی ہے۔یعنی جنوری کے آخر میں اسمبلیاں تحلیل کی جائیں تو تین ماہ نگران حکومتوں کے ڈال کر مئی میں انتخابات بنتے ہیں اور یہ وہ وقت ہو گا جب قومی اسمبلی سمیت تمام اسمبلیوں کا وقت پورا ہوجائے گا ۔اگلے تین ماہ پھر نگران سیٹ اپ کے بنتے ہیں ۔سو پی ڈی ایم مئی میں ہی تمام انتخابات کرانے پر مجبور ہو سکتی ہے ۔جب کہ ملک کی معیشت آخری سانس لے رہی ہے جس طرف حکومت کی توجہ اور د لچسپی نہیں لگتی کیونکہ دونوں جانب انا کے بت ٹوٹنے نہیں پا رہے ۔ میچورٹی نہیں دکھائی جارہی ۔سو نظریہ ضرورت ہی سہی صدر اور ذمہ دار حلقے پیچ کی کوئی صورت نکالیں۔ اقتصادی ماہر اشفاق احمد نے ڈاکٹر مسعود کے پروگرام میں معاشی ابتری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملکی معیشت کو جان بوجھ کر خراب کیا جارہا ہے دسمبر میں جب رحیم چینج کا ڈول ڈالا گیا تو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے انیس ارب ڈالر سے زائد تھے فروری کے آخر تک تین ارب ڈالر کم ہو گئے ۔16 ارب ڈالر رہ گئے جب تحریک عدم اعتماد مکمل ہوئی تو مزید پانچ ارب ڈالرکے ذخائر کم ہوگئے یعنی گیارہ ارب ڈالر پر آگئے اور آج ملکی خزانے میں صرف ساڑھے سات ارب ڈالر پڑے ہیںیعنی پونے بارہ ارب ڈالر میں رحیم چینج آپریشن ہمیں پڑا ہے اس نقصان کی وجہ سے ڈیفالٹ کی بات کی جا رہی ہے فرخ سلیم کے مطابق اس میں بھی تین ارب ڈالر سعودی ارب کے ہیں جنھیں ہم خرچ نہیں کر سکتے۔جن کی واپسی کی تاریخ بڑھا دی گئی ہے باقی ساڑھے چارارب میں سے بھی بہت سی لوکل ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ مقامی بینکوں سے لیا گیا قرض بھی شامل ہے سو نیٹ ریزرو منفی میں چلے جاتے ہیں اسی طرح بیرونی ائیر لائنز کو بھی ڈالر فراہم نہیں کئے جارہے ترکش ائیر لائن کا 25 ملین ڈالروں میں تبدیل نہیں ہو رہا جو وہ اپنے ہیڈ کوارٹر کو بھیجے۔آئی ایم ایف نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔وزیر خزانہ جنھیں آئی ایم ایف سے کوئی سروکار نہیں اپنے سابقہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ وزیراعظم کو بیرونی دوروں کے شوق نے بھی ملکی خزانے کو ٹیکہ لگایا ہے۔ملکی قرضوں کی صورت حال خطر ناک حد تک پہنچ گئی ہے۔2015میں ملکی قرضے 65ارب ڈالر تھے جو 2022 کے آخر میں 130ارب ڈالر کو پہنچ گئے ہیں۔جبکہ 2025میں 73ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ ادھر عمران نے ایک اور پتہ کھیلتے ہوئے حکومت کو مزاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن فوری کروا کر ملک کو مزید عدم استحکام سے بچایا جاسکتا ہے کیونکہ ملک کی معاشی حالت دن بدن تشویش ناک ہوتی جارہی ہے لیکن حکومت مزاکرات سے یہ کہہ کر بھاگنے کے چکر میں ہے مشروط مذاکرات نہیں کریں گے۔بقول اپنے ۔
جب میں پتھر تھا تو مجھ کو موم وہ کرتا رہا
میں ہوا جب موم تو وہ شخص پتھر ہو گیا
اس کے ہاتھوں میں کبھی کشکول ہوتا تھا مجاز
آدمی جو اب مقدر کا سکندر ہو گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri