خواجہ آصف اپنی گفتار، کردار اور رفتار کے اعتبار سے قابل توجہ یا قابل تعریف سیاستدان تو کبھی بھی نہیں رہے،لیکن عثمان ڈار کی والدہ محترمہ ریحانہ ڈار سے این اے 71 سیالکوٹ سے مبینہ طور پر شکست کھانے کے بعد لگتا ہے کہ شاید ”ماں” یا ”والدہ محترمہ ” کا ذکر ان کی چھیڑ بن چکا ہے۔ عثمان ڈار کی بزرگ والدہ محترمہ ریحانہ ڈار سے مبینہ طور پر ہارنے اور بعد ازاں فارم 47کے بدنام زمانہ جنتر منتر سے جیت جانے کے بعد خواجہ آصف نے اپنی خفت و شرمندگی مٹانے اور غصہ نکالنے کے لیے سیالکوٹ کے ایک میٹرنٹی ہسپتال کا انتخاب کیا۔
ہوا یوں تھا کہ کسی سابق حکومت کی طرف سے سرکلر روڈ سیالکوٹ پر واقع ایک زچہ و بچہ سینٹر کو اپ گریڈ کرتے ہوئے غالباً تین کروڑ روپے کی لاگت سے میٹرنٹی ہسپتال کا درجہ دیتے ہوئے سے علامہ اقبال کی والدہ محترمہ امام بی بی کے اسم گرامی سے منسوب کر دیا گیا تھا۔
اب جو خواجہ آصف وزیر بنے تو انہیں اس میٹرنٹی ہسپتال کو ایک ماں کے نام سے منسوب کرنا پسند نہیں آیا، اور انہوں نے اس ہسپتال پر سے علامہ اقبال کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی ہٹا کر اپنے والد خواجہ صفدر کا نام لکھوا دیا۔ خواجہ آصف میں اتنی ہمت اور جرات کہاں سے آ گئی کہ وہ علامہ محمد اقبال کی والدہ محترمہ کا نام ہٹا کر ایک میٹرنٹی ہسپتال کو اپنے والد کے نام سے منسوب کر دیں؟
ستم ظریف کا خیال ہے کہ خواجہ آصف میں یہ ہمت وزیر دفاع کے منصب اور مریم صفدر کے وزیر اعلی پنجاب بن جانے کی وجہ سے آئی ہے۔ ستم ظریف کی یہ بات درست ہو یا نہ ہو، لیکن سچ تو یہی ہے کہ ”ن لیگ ” کو مرکز اور پنجاب پر براجمان کرنے والوں کو خواجہ آصف طرز کا وزیر دفاع بڑا مرغوب ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر خواجہ آصف کو علامہ اقبال کے فکر اور ان کے مقام سے سخت گریز اور پرہیز ہے۔یہ خواجہ آصف ہی تو ہیں کہ جن کی مساعی سے آج تک سیالکوٹ شہر میں کوئی بڑی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹی نہیں بن سکی۔ پھر خواجہ آصف کا ایک نفسیاتی مسلہ یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ میں علامہ اقبال سے منسوب کوئی سرکاری یونیورسٹی یا کوئی بڑا تحقیقی ادارہ نہ قائم کیا جائے۔
خواجہ آصف کی اقبال دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیر بنتے ہی سیالکوٹ سے وابستہ اقدار و روایات کا تحفظ کرنے کی بجائے ایک میٹرنٹی ہسپتال کا نام تبدیل کر کے کردیا ہے۔ میٹرنٹی ہسپتال کے نام کی یہ تبدیلی یقیناً وزیر اعلیٰ پنجاب کی پیشگی منظوری سے عمل میں آئی ہو گی۔اب دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب پر ”جاتی عمرا” کے ہمہ جہت اثرات کی شکار ایک خاتون وزیر اعلی کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔چونکہ وہ ایک خاتون ہیں، اس لیے ان کے علم میں ہو گا کہ میٹرنٹی ہسپتال مردوں کے علاج معالجے کی جگہ نہیں ہوتے، یہ ہسپتال خواتین کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔اسی لیے ایسے ہسپتال کسی محترم خاتون کے نام سے ہی منسوب ہونے چاہئیں۔ لیکن شاید انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ خواجہ صفدر کی سیاست کا بڑا حوالہ پاکستانی تاریخ کے سب سے زیادہ ضرر رساں ڈکٹیٹر کی مجلس شوریٰ کے رکن ہونا رہا ہے۔جس محترم خاتون محترمہ امام بی بی کا نام ہٹایا گیا ہے، وہ علامہ محمد اقبال کی والدہ محترمہ تھیں، جبکہ خواجہ صفدر صاحب خواجہ آصف کے والد تھے۔
حفظ مراتب کے اس ہزاروں میل سے زیادہ فاصلے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ خواجہ آصف نے یہ واردات کرنے کے فورا بعد عمرے پر روانہ ہو گئے۔ اگر کسی کے پاس مالی وسائل اور عمرے کا ویزا ہو تو وہاں جا کر سال بھر کے گناہوں کی معافی تلافی کا بندوبست کر لیا جاتا ہے، کم از کم گناہوں کا پیدا کردہ نفسیاتی بوجھ تو اتر ہی جاتا ہے۔
سیالکوٹ سے ایک دوست نےوضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس زچہ و بچہ سینٹر کا نام پہلے خواجہ صفدر کے نام پر ہوا کرتا تھا،کسی سابق حکومت کے دور میں جب اس زچہ و بچہ سینٹر کو اپ گریڈ کرتے ہوئے، خطیر رقم خرچ کر کے ہسپتال کا درجہ دیا گیا تو اس وقت اس ہسپتال کو علامہ اقبال کی والدہ محترمہ کے اسم گرامی سے منسوب کر دیا گیا تھا۔یہ دوست اس بات سے متفق ہیں کہ خواجہ آصف کو محترمہ امام بی بی کا نام ہٹا کر ہسپتال کا نام خواجہ صفدر کے نام پر نہیں رکھنا چاہیئے تھا۔
اگر یہ بات درست بھی ہو کہ زچہ و بچہ سینٹر کو ابتداءمیں خواجہ صفدر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا،تو اس وقت ایسا کرنا بھی بالکل غلط تھا۔کیونکہ مرد سیاستدان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی تشہیر کے لیے زچہ و بچہ سینٹر پر اپنا نام تھوپ کر فخر کرے۔ ایک غلطی اگر باپ نے کی تھی تو دوسری غلطی ان کے فرزند نے 2024ءمیں کر دی ہے۔ حکومت وقت کے سربراہ کا یہ فرض ہے کہ وہ میٹرنٹی ہسپتال سرکلر روڈ سیالکوٹ کا محترمہ امام بی بی کے نام کا انتساب فوری طور پر بحال کرتے ہوے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے وزراءکی طرف سے آئندہ اس طرح کی بے وقوفیاں نہ ہوں۔
کالم
امام بی بی میٹرنٹی ہسپتال سیالکوٹ
- by web desk
- اپریل 13, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 551 Views
- 11 مہینے ago