غزہ میں برپا کی گئی جنگ نے دنیا بھر کے مہذب اور منصف مزاج انسانوں کو بلا امتیاز مذہب ، رنگ ،نسل ، زبان اور ملک کے، انسانیت کے نام پر متحد اور ہم آواز کر دیا تھا۔اور یہی وجہ ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی بے رحمانہ نسل کشی کے خلاف دنیا میں سب سے بڑے، پرجوش اور معنی خیز احتجاجی مظاہرے خود اسرائیل کے حقیقی "بازوئے شمشیر زن” امریکہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں دیکھنے میں آئے تھے ۔ان مظاہروں نے دنیا کو مسیحی ، مسلم اور یہودی کی تقسیم سے نکال کر ظالم اور مظلوم کی تقسیم میں بدل کر رکھ دیا تھا۔نیویارک شہر دنیا میں یہودی آبادی کا سب سے بڑا گڑھ شمار کیا جاتا ہے ، وہاں اسرائیلی جارحیت اور ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں امن پسند اور انسانیت نواز یہودیوں کی بڑی تعداد شریک رہی تھی۔ ایک طویل مدت تک امریکہ نے "انسانی حقوق” کو اپنی خارجہ پالیسی کا آزمودہ نعرہ بنا رکھا تھا۔اسی نعرے سے وہ سوویت یونین اور بعد ازاں روس کو مطعون کرتا رہا ،اور اسی نعرے کو وہ چین پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کرتا رہا ہے،اور اب بھی ایسا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی وہاں کی ڈیفنس انڈسٹری اور اس ڈیفنس انڈسٹری کے پینٹاگون نامی مینجرز کے زیر اثر بلکہ زیر تسلط رہتی ہے اور اس خارجہ پالیسی کا انسانیت ، انصاف ، انسانی حقوق یا اقوام عالم کے مابین مساوات و مواخات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔یہ خارجہ پالیسی امریکی سرمایہ پرستی کے تحفظ اور بے پایاں فروغ سے تعلق رکھتی ہے۔اس سب کےساتھ ساتھ وہ جسے علامہ اقبال نے”پنجہ یہود“سے تعبیر کرتے ہوئے صاف صاف بتا دیا تھا کہ ؛
فرنگ کی رگِ جاں پنج یہود میں ہے
تو اب واقعتا یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ امریکہ میں علم و تحقیق اور ایجاد و اختراع کی ساری روشنی کو اسرائیل کے صیہونیوں کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔الیکشنز سے پہلے دنیا میں جنگوں اور تنازعات کو ختم کرنے کے نعرے لگانے والا ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد یک دم ڈونلڈ ٹرمپ سے نیتن یاہو بن گیا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ؛ نو منتخب امریکی صدر نے سب سے پہلے جس غیر ملکی سربراہ کو امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے ،وہ غزہ کا قاتل و قصاب نیتن یاہو ہے۔اب کیا ایک عالمی طاقت کے طور پر مسلہ فلسطین کے حوالے سے امریکہ کی غیر جانبداری باقی رہ پائے گی؟ دراصل ایسی غیر جانبداری تو کبھی تھی ہی نہیں۔ امریکہ کے حقیقی ضمیر کی نمائندگی یہاں کی یونیورسٹیوں کے طالب علم، محقق اور دانشور کرتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملوں کے خلاف اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں احتجاجی کیمپس لگائے اور اسرائیل کی مچائی تباہی کو روکنے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اپنی حکومت اور دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ کولمبیا یونیورسٹی میں کیمپ لگانے والے طلبہ کو پولیس کی طرف سے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا، طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا تھا،ایسی ہی کارروائیوں کا سامنا نیو یارک یونیورسٹی ، ہاورڈ ، ییل، برکلے ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف مشی گن، ٹیکساس یونیورسٹی اور ایمرسن کالج کے طلبہ کو بھی کرنا پڑا تھا۔ یونیورسٹی طلبہ کے ان مظاہروں کے علاوہ امریکہ کے کثیر تعداد میں انسانیت نواز اور مظلوم دوست لوگوں نے ملک کی تمام ریاستوں میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کئے تھے ۔یہاں تک کہ امریکی اہلکاروں کی پریس بریفننگز میں بھی صحافیوں کی طرف سے مثالی احتجاج دیکھنے میں آئے۔وہ وقت گزر گیا ،اگرچہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے اسرائیلی ظلم کو روک نہیں سکے ، نہ ہی امریکہ کو ایک متشدد ریاست کی عسکری پشت پناہی سے باز رکھ سکے۔لیکن انسانیت نواز مظاہرین نے تاریخ کے اوراق پر اپنے احتجاج اور موقف کا اندراج بطریق احسن کروا دیا تھا۔ اس پس منظر میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طالب علموں کے خلاف انتہائی اقدامات کرنے کا عزم اور ارادہ ایک جدا طرز کے ذہنی دیوالیہ پن کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ غزہ جنگ کو ختم کرنے اور مسلہ فلسطین کو پرامن اور منصفانہ طریق سے حل کرنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے اسرائیلی انتہا پسند صیہونیوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف عمل نظر آ رہی ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کرنے والے یونیورسٹیوں کے غیر ملکی طلبہ کو سزا کے طور پر ملک بدر کرنا چاہتی ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں حماس اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف قوانین بنائے جائیں ۔ٹرمپ کا ارادہ ہے کہ فلسطینیوں سے ہمدردی اور اسرائیلی جرائم کی مخالفت کرنے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیئے جائیں گے۔
ٹرمپ نے گزشتہ سال طلبہ کو احتجاجی مظاہرے کرنے کی اجازت دینے والی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ پر بنیاد پرستی کا الزام بھی لگا دیا ہے ۔ستم ظریف ڈونلڈ ٹرمپ کی حرکات و سکنات دیکھ کر کہتا ہے کہ ٹرمپ کو امریکہ کے صدر کی بجائے اسرائیل کے وزیر اعظم کا الیکشن لڑنا چاہییے تھا۔میں نے اس نادان کو سمجھایا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے نیتن یاہو کو شکست دینی پڑتی۔اسی لیے ٹرمپ نے امریکہ میں الیکشن لڑنے کو ترجیح دی تھی ۔ دنیا کے مختلف ممالک کو انسانی حقوق اور اظہار رائےکی آزادی کے حوالے سے ہدف تنقید بنانے والے امریکہ کے پاس ڈونلڈ ٹرمپ کی تازہ پالیسیوں اور اقدامات کے بعد ایسا منہ باقی نہیں رہا، جو دوسروں کو ہدف تنقید و ملامت بنا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ کا سب سے بڑا بحران ایسے "منہ” کی تلاش ہو گا ،جو کسی شرمندگی یا خجالت کے ،دنیا کو دکھایا جا سکے ۔جہاں تک سفید فام ٹرمپ کے اقدامات اور پالیسیوں کا تعلق ہے ، وہ اپنے نتائج و اثرات کے حوالے سے سراسر تاریک ترین ثابت ہو سکتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہیئے کہ یہود نوازی اور اسرائیل پرستی کو باقاعدہ طور پر امریکی آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کرے۔ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کو ایلون مسک کی مدد سے ایسے آلات ایجاد اور تیار کروانے چاہیں ،جن کی مدد سے ان امریکی شہریوں کو گرفتار کر کے حوالہ زندان کیا جا سکے ، جو چپ چاپ اور اکیلے بیٹھ کر فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے پیہم مظالم پر غمزدہ ہو کر سوچتے رہتے ہیں۔ممکن ہے کہ وہ ننھے بچوں ، عورتوں اور مردوں کی ہلاکت پر غصے میں آکر نیتن یاہو اور اس کے جاں نثار حمایتیوں کو دل ہی دل میں بددعائیں بھی دیتے ہوں؟ پولیس کے پاس ایسے سوفٹ ویئر اور آلات ہونے چاہیں جو شہریوں کے دل و دماغ میں آنے والے اسرائیل مخالف خیالات و جذبات پر الارم بجانا شروع کر دیا کریں ، تاکہ وفاقی پولیس انہیں فورا گرفتار کر سکے۔ستم ظریف کی ایک اور تجویز فرانس کی طرف سے امریکہ کو تحفے میں دیئے گئے مجسمہ آزادی کے حوالے سے ہے ،وہ کہتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن سے سخت بے زاری کے پیش نظر اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ کسی روز مجسمہ آزادی بھی اکھاڑ کر کسی فوجی طیارے میں رکھ کر فرانس کو واپس کر دیا جائے، وہ کہتا ہے کہ اگر ایسا ہوا ،تو پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہیئے کہ مجسمہ آزادی کی جگہ پر نیتن یاہو کا مجسمہ بنوا کر مجسمہ ہلاکت کے نام سے نصب کرانے کا بندوبست کرے۔ستم ظریف کے یہ الجھے خیالات اور منتشر تجاویز سن کر میں نے اسے اچھی غذا، مناسب علاج اور مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔
کالم
امریکہ کی رگ جاں اور پنجہ یہود
- by web desk
- فروری 3, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 18 Views
- 13 گھنٹے ago