کالم

امریکی سازش اور ٹرمپ کے ہوشرباانکشافات

یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے قبل ٹیکساس میں اپنی صدارتی مہم کی ریلی کے دوران سابق ایرانی ریولیوشنری ’گارڈ‘ کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی بابت ہوش ربا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان نے قاسم سلیمانی کے مرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ جب میں نے قاسم سلیمانی کی موت کا سنا تو یہ میری زندگی کا سب سے اہم لمحہ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے بظاہر امریکہ کی غلامی سے” نجات “حاصل کرنے والا شخص امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر خوشیاں کیوں منا رہا تھا ۔ مبصرین کے مطابق اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کےلئے ایک طرف امریکا نوازی اور دوسری طرف عوام کو بہکانے کےلئے اُسی امریکہ سے حقیقی آزادی کا سیاسی نعرہ لگایا گیا۔ یہ امر اب ایک کھلا راز بن چکا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی مدد حاصل کرنے کے لیے ہر غیر ملکی امبیسی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور اس بابت تحریک انصاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان کو ایک ناکام ملک کے طور پر پیش کر نے کی مکروہ سازش میں مصروف نظر آتی ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بہت سے غیر ملکی سفارت خانوں کو پاکستان کا ایسا عکس پیش کرنے کے پیچھے نیت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت پر دبا¶ ڈالا جا سکے۔علاوہ ازیں تحریک انصاف بار باریہ بیانیہ بھی پیش کر تی رہی ہے کہ اگر اس کی قیادت کسی طرح بھی نااہل ہو گئی تو گویا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔مبصرین کے مطابق عمرانی میڈیا اپنا بیانیہ ہر امبیسی کے حساب سے تبدیل بھی کرتا رہتا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس اپنے تمام تر الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیںاس کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر اکثر بیرون ملک حکومتوں سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں جو دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔اسی پس منظر میں غیر جانبدار ذرائع نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ 9مئی کے سیاہ ترین واقعات کے ٹھوس شواہد سامنے آنے کے باوجودپی ٹی آئی تا حال اسی سعی میں مصروف نظر آتی ہے کہ بھارتی اور کچھ اپنے ا مریکی ہم نواﺅں کے ساتھ ملکر یہ بیانیہ ترتیب دے سکے کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہےں ۔نسبتاً کچھ اعتدال پسند حلقوں کے مطابق اپنے غیر ملکی آقاﺅں کی مدد سے پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بیچنے میںکسی حد تک کامیاب بھی نظر آتی ہے جس پر بجا طور پر تشویش ظاہر کیا جانا ضرورت وقت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔ اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہےں کہ شخصی آزادی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کےلئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہےے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوںنے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہےںاور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہےں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ وہ ریاست کے اعلیٰ آئینی عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہےں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اس امر کی ایک مثال تو پونے دو برس قبل تب سامنے آئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شاہ محمود ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”ابھی تو ہم نے اس سے مزید کھیلنا ہے “۔دوسری طرف پچھلے چند ماہ قبل منصفی کے اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کے قریبی عزیز و ں کی باہمی گفتگو کی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آئیں تھی جن کی بابت ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان کی بابت یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ یہ سب آزادی اظہار ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔حالانکہ کسے نہےں پتہ کہ جب امریکہ میں 9/11کا سانحہ پیش آیا تھا تو وہاں کی سول سوسائٹی اور حکومت نے کیسا ردعمل دیا تھا علاوہ ازیں جب برطانیہ میں 7/7کی دہشتگردی ہوئی تو وہاں کی ریاست نے کس طورفوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہر قسم کی شخصی آزادیاں ختم کر دی تھیں اورکپیٹل ہل امریکہ میں ریاست مخالف عناصر کو 18برس تک قید با مشقت کی جو سزائیں دی گئیں وہ معاملات تو اتنے تازہ ہےں کہ ان کی تما م تفصیلات سے تو پاکستان سمیت دنیا بھر کا ہر خاص و عام آگاہ ہے۔ ایسے میں وطن عزیز میں 9مئی کے سیاہ ترین دن کو ہونےوالی دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے ۔توقع کی جانی چاہےے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ پہنچے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے