الیکشن آٹھ فروری کو ہو گئے بہت بے تابی سے اس وقت کا انتظار تھانتائج بھی ویسے ہی سامنے آئے جسطرح لوگ سوچتے تھے مخلوط حکومت ہی بننا تھی جن امیدواروں کی اکثریت ہے انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں کیونکہ یہ آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے نمائندے ہیں اور یہ سیاسی جماعت آجکل گردش لیل و نہار میں ہے۔ اس جماعت کی حکومت کا بننا ممکن ہی نہیں بہت سی وجوہات ہیں جنہیں بغیر بیان کیے سب لوگ جانتے ہیں اللہ ملک کو ہمیشہ قائم رکھے جسکی وجہ سے ہمیں پاکستانی کہا جاتا ہے ہماری ایک پہچان ہے امید ہے دائیں بائیں جھٹکے کھا کر ہم سیدھی راہ پر چل پڑیں گے ۔بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی پاکستان تھا ہم سے الگ ہو کر ایک مملکت بن گیا اب اسکی معیشت ہم سے بہت بہتر ہے حکومت جب انتخابات کے ذریعے بنتی ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کو رائج کرنے اور نتائج حاصل کرنے کےلئے وقت درکار ہوتا ہے اگر قلیل مدت میں انہیں فارغ کر دیا جائے تو ملک نہ صرف افراتفری کا شکار ہوتا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی کمزورہی رہتا ہے بین الاقوامی اداروں سے قرض لے کر وقتی طور پر تو مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں لیکن قرض کے انبار اور پھر اصل رقم سود کےساتھ واپس کرنا کمزور معیشت والے ملک کےلئے مشکل ترین امر ہوتا ہے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس کی شرح بڑھتی رہتی ہے لیکن ان کی آہ وبکا سنی نہیں جاتی اس وقت جو ہمارے ملک کے معاشی حالات ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ۔خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک کے مصداق انہی حالات میں شب و روز گزارنا ہوں گے آئندہ دس برسوں میں شاید حالات بہتر ہو جائیں حکومت مخلوط بنے یا کسی ایک جماعت کی اس کے لیے موجودہ معاشی حالات میں ذمہ داری سنبھالنا آسان کام نہیں عوام کو سبزباغ دکھا کر حکومت کرنا بھی مشکل ہے لوگ بہت باشعور ہو چکے ہیں اپنے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ان حقیقتوں کو سمجھنے کے قابل ہیں آنے والا وقت بتائے گا آٹا دال کس بھاو فروخت ہو رہے ہیں وزیر اعظم کس حد تک اپنے امور کی بجاآروی میںکامیاب ہے یہ بھی وقت ظاہر کر دے گااچھی توقعات رکھنی چاہیں حکومت کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہو تی کہ جس طرح چاہے عمل کرے عوام محاسبہ کرنے میں بہت ایکٹیو ہو چکے ہیں لچھے دار باتوں سے عوامی جزبات پرقابو پانا سیاسی رہنماوں کےلئے آسان نہیں رہا۔حالیہ انتخابات کے نتائج کے دوران جن خیالات کااظہار نواز شریف نے اپنی تقریر میں کیا وہ سننے میں معقول اور دانشمندانہ احساسات معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت کے بارے میں وقت سے پہلے کچھ نہیں کہا جا سکتا مخلوط حکومت میں شامل ہر ایک سیاسی جماعت اپنے منشور اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہے گی تاکہ آئندہ ووٹ کے حصول میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مخلوط حکومت کا بننا اور طویل مدت تک چلنا آسان نہیں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت کا منشورالگ ہونے کی وجہ سے انکے مفادات کا معیار بھی الگ ہوتا ہے پل میں تولہ پل میںماشہ والی کیفیت رہتی ہے حکومتی سربراہ کا حکومت میں شامل سب جماعتوں کو خوش رکھنا آسان کام نہیں، اس وقت کے حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ملک کی بقا سلامتی اور بہتری کےلئے کا م کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں اور عمل کریں بلوچستان پر خصوصی توجہ اور مراعات دینے کی اشد ضرورت ہے ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے میںبھی کوئی کسر اٹھانہ رکھے گی پنجاب اور سندھ کے علاوہ ملک کے تمام صوبوںکو خصوصی توجہ اور مراعات کےساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ امریکہ اور یورپ ہمارے ملک میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہوئے چاہتے ہیں کہ انکی ہدایت اور خواہشات کے مطابق حکومت کام کرے کیا اس صدی میں ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو کرامریکی غلامی میں آ چکے ہیں حالیہ انتخابات پر انکے تبصرے خصوصی توجہ چاہتے ہیں ہمارے حالات جیسے بھی ہیں ہمیں اپنی سوچ عمل اور منصوبوں سے انہیں حل کرنا ہے دوسرے ممالک کے تجربات اور مشوروں کی ضرورت نہیں کیا ہمارے لوگوں میں پالیسی میکر کی کمی ہے کیا ہم اس قابل نہیں کہ اپنی مشکلات کا صحیح حل تلاش کر سکیں بین الاقوامی ادارے بھی قرض دیتے وقت من مانی شرائط منواتے ہیں ان کی بلا سے عوام بھوکے مریں یا زندہ رہیںانہیں ادھار کی رقم مع سود ہر صورت میں چاہیے جن کی مثال ہمارے سامنے ہے چائنہ کی قوم نہ صرف معاشی معاشرتی اور اخلاقی طور پر زوال پزیر تھی بلکہ عوام کو بنیادی ضرورتوں کے حصول میں بھی بری طرح ناکام تھی ماوزے تنگ نے انہیں ایک زندہ قوم کی صف میں لا کھڑا کیا وقت کے ساتھ انہوں نے ملک کو معاشی طور پر اتنا مضبوط کر لیا کہ امریکہ جیسی طاقت بھی انہیں اہمیت دینے پر مجبور ہو گئی اب چین دنیا کا طاقتور ترین ملک بن چکا ہیں ۔
ہمارے ملک میں معدنیات کے ذخائر موجود ہیں سونے چاندی سے لیکر اللہ نے ہر معدنیات فراہم کی ہے اب حکومت وقت کو چاہیے کہ مناسب منصوبہ بندیوں کے ذریعے ان ذخائر سے فائدہ اٹھائے سیاسی رہنما اپنے مفادات کو پیش نظر نہ رکھیں بلکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کا سوچیں ہم نے تو ایک عمر گزار کر چلے جانا ہے یہ ملک ان شااللہ تا قیامت رہے گا اسکی ترقی اور خوشحالی اولین مقصد ہونا چاہیے اس وقت اللہ کے فضل سے ہم ایٹمی قوت ہیں یہ کم اعزاز نہیں اسکا احساس کرتے ہوئے ہمیں اپنے کمزور پہلووں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے ہر ایک شخص کو احساس کرنا ہوگاکہ میرے اس گھناو¿نے فعل سے معاشی اور معاشرتی حالات پر کیا اثر پڑیگا ۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوگی اس وقت تک معاشی استحکام کے حصول کی جدوجہد بھی ناکامی کی صورت میں ڈھلتی رہے گی ۔ نہ صرف سیاستدانوں کوبلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک کی ترقی میں ایماندارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرنا پڑیگا سیاسی محاذپر نمائندوں کی خریدوفروخت ایک لعنت سے کم نہیں انتخابات میں واضح اکثریت نہ ہونے کی صورت میں مخلوط حکومت بنتی ہے تو اس میں ایسے حربے ضرور سر اٹھاتے ہیں اور حکومتی ساتھی بننے پر جو پیسہ ان ممبر ز کو دیا جاتا ہے وہ بھی پبلک کا پیسہ ہوتا ہے جو بے دریغ استعما ل میں لایا جاتا ہے ایسے گھٹیا حربوں سے جان چھڑانے کی اشد ضرورت ہے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے عوام ہر طرح کی قربانی دیتے چلے آ رہے ہیں اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دو وقت کے کھانے کا بندوبست بھی محال ہو چکا ہے جن سیاسی جماعتوں کی حکومت معرض وجود میں آئے ان پر یہ بھاری ذمہ داری ہوگی کہ قلیل مدت میں عوام کو کسی حد تک آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ ان کے شب و روز فکر اور فاقوں سے آزاد ہوکر گزریں عوام کا حکومت سے بھر پور تعاون بھی اسی وقت متوقع ہوتا ہے جب انہی بنیادی ضرورتوں کے حصول میں دشواریاں نہ ہوں روپے کی قدر میں اضافہ محسوس ہو موجودہ معاشی حالات تکلیف دہ ہیں ان سے جلد نجات کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی ورنہ معاشی بہتری کے لیے دس سال کا طویل عرصہ عوام کے لیے سزا سے کم نہیں ہوگا۔
کالم
انتخاب اور توقعات
- by web desk
- فروری 14, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 301 Views
- 10 مہینے ago