انسانی سمگلنگ کا پیچیدہ مسئلہ محض پاکستان کو ہی درپیش نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک اس گھناو¿نے کاروبار کے خاتمے جیسے چیلنج سے نبرد آزما ہیں، پاکستان کے حوالے سے یوں کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ چند سالوں میں اس مسئلہ نے شدت اختیار کی ہے ، بظاھر اس کی ایک وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوسکتا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دینے اور پھر اپنے پیاروں کو سمندر برد کرنے کا سلسلہ بدستور تھمنے کا نام نہیں لے رہا،ہیومن ٹریفکنگ کے خاتمہ کےلئے پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی حکومت ٹھوس اقدمات اٹھا رہی ہے مگر شائد اسکے نتائج نکلنے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے ، درپیش معاملہ کا اہم پہلو یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر ملک سے جانے والوں کےخلاف اقدمات محض وفاقی حکومت کی ہی زمہ داری نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں بھی برابر کی زمہ دار ہیں ، غیر ملکی میڈیا نے ایف آئی اے حکام کے حوالے سے ماضی قریب میں یہ انکشاف کیا کہ ادارے میں ہیومن ٹریفکنگ کے خاتمہ کے لیے الگ سے یونٹ بنایا جاچکا ہے جس کے بنیادی فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ غیر قانونی طور پر ترک وطن کرنے کے رججان کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لے کر تدراک کے لیے تجاویز پیش کرے ، اس سلسلے میں ‘ایف آئی اے امیگریشن ونگ کراچی، اسلام آباد، لاہور اور ملتان کے ہوائی اڈوں پر ‘سیکنڈ لائن بارڈر کنٹرول آفسز قائم کیے جا چکے ہیں، جو کسی بھی جدید فورینزک ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں ، جس کی مدد سے کسی بھی مسافر کی مشکوک سفری دستاویزات کی موقع پر ہی جانچ پڑتال کر کے ضرورت پڑنے پر کاروائی کی جاسکتی ہے، شبہازشریف حکومت کے سنجیدہ اور مربوط اقدمات کے نتیجے میں ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام اور بیرونی ممالک کے ساتھ بہتر تعاون کے لیے پاکستان کا سرحدی انتظامی
نظام کا بین الاقوامی پولیس انٹرپول کے ڈیٹا بیس کے ساتھ کامیاب انضمام بھی عمل میں آ چکا ہے۔ انٹرپول کے اس ورلڈ ڈیٹا بیس میں مختلف ممالک کے گمشدہ یا چوری شدہ پاسپورٹوں، مفرور ملزمان، اغوا شدہ بچوں سمیت خطرناک جرائم میں ملوث افراد کے بارے میں معلومات محفوظ کی جاتی ہیں۔ سرکاری سطح پر پاکستان سے وزٹ ویزہ پر یا غیر قانونی راستے افریقہ جا کر وہاں سے ڈنکی لگا کر یورپ جانے کے واقعات میں اضافہ کی وجوہات کا گہری سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ بلاشبہ اس ضمن میں ایف آئی اے پر بڑی ذمہ داری عائد ہے کہ وہ افریقہ جانے والے پاکستانیوں سے پوچھ گچھ کریں کہ وہ کس مقصد کے لیے وہاں جا رہے ہیں۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ میڈیا اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے دیگر اداروں کو بھی غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جانے والے نوجوانوں کےلئے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، یعنی عام پاکستانی کو یہ سمجھایا جائے کہ جدید دور میں کوئی ملک اپنی حدود میں غیر قانونی طریقے سے داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے انسانی سمگلنگ روکنے کے اقدامات ناکافی ہیں کیونکہ ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملوث ہوئے بغیر انسانی سمگلنگ روکنا ممکن نہیں ۔ مثلا ًجو کام حکومت کو کرنا ہے وہ یہ کہ سب سے پہلے تو ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تا کہ نوجوان کم از کم بیرون ملک جانے کےلئے غیر قانونی راستے کا انتخاب کریں۔پاکستان میں انسانی سمگلنگ ایک سنگین جرم کےساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ سمگلرز بے گناہ شہریوں کو بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر انہیں غیر قانونی راستوں سے دوسرے ممالک منتقل کرتے ہوئے عملاً ان کا استحصال کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کی جاری کردہ ایڈوائزری میں 15 ممالک کی ایسے مقامات کے طور پر شناخت کی گئی ہے جہاں پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی طور پر منتقل کیا جاتا ہے۔ایڈوائزری کے مطابق غیر قانونی طور پر جانے والوں میں 15سے 40سال کے نوجوان کی اکثریت پائی جاتی ہے ، دراصل یہ نتیجہ ان اداروں کی جانب سے نکالا گیا ہے جو انسانی سمگلنگ کے مختلف واقعات کی مسلسل تحقیقات میں مصروف ہیں ،ایف آئی اے کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق مسافروں کی پروفائلنگ لازم ہے،انکے سفری مقاصد، مالی حیثیت اور دستاویزات کی باریک بینی سے جانچ پڑتال ضروری قرار دی گی ہے۔
وزٹ، سیاحتی، مذہبی اور تعلیمی ویزوں پر بیرونِ ملک جانے والے افراد خاص طور پر زیرِ نگرانی رہیں گے۔اس سلسلے میں مذید اقدمات یہ اٹھائے گے ہیں کہ پنجاب کے شہر گجرات، منڈی بہاالدین، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، اور بھمبر جیسے شہروں کے مسافروں کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی ہے دراصل ماضی میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سمگلنگ کے نیٹ ورکس کا حصہ بنے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ ایف آئی اے کی ایڈوائزری میں درج ہدایات کا مقصد تو بظاہر انسانی سمگلنگ کی روک تھام ہے مگر درج بالا اقدامات کے اثرات نوجوانوں کی آزادنہ سفر کے حق پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ کئی نوجوان اپنے تعلیمی یا پیشہ ورانہ مقاصد کے حصول کے لیے بیرونِ ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اضافی چیکنگ اور سخت نگرانی ان کے لیے رکاوٹ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
کالم
انسانی سمگلنگ بین الاقوامی مسئلہ
- by web desk
- جنوری 31, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 55 Views
- 1 مہینہ ago