کالم

اکیسویں صدی میں بیسویں صدی کی جنگ

سب سے پہلے پاکستان، پھر افغانستان
تو گویا عقدہ یہ کھلا کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو یوکرین سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، وہ صرف روسی صدر کی قوت برداشت جانچ رہے تھے ۔یہ جانتے ہوئے کہ روس اپنے دروازے پر امریکی اور اس کے یورپی اتحادیوں کے میزائل ، فوجی دستے اور آلات مخبری نصب نہیں ہونے دے گا ، یہ جانتے ہوئے کہ کوئی بھی ذی ہوش ملک اپنی پتلون میں چوہا گھسنے نہیں دیتا،امریکہ نے یوکرین کی قیادت کو نیٹو میں شامل کرنے کے خواب دکھائے اور وہ نادان اسے محبت سمجھ بیٹھے ۔ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق امریکہ کی دشمنی حیات افروز ،جبکہ محبت جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔یوکرین کے پریشان اور اداس صدر نے کہا ہے کہ نیٹو یوکرین کو کوئی بھی ضمانت دینے سے خوفزدہ ہے۔تو گویا راز یہ کھلا کہ نیٹو روس کے صدر کے لب و لہجے اور بیان کی گہرائی کو سمجھنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے ، جنہوں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ مغرب اس تنازع سے اب دور رہے ، اگر کسی نے مداخلت کا سوچا یا روس کےلئے خطرے کا باعث بنا تو ایسا جواب دیں گے ،جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ستم ظریف ولادیمیر پوٹن کے اس انتباہ کو صاف جواب قرار دے رہا ہے ، جسے مغرب نے بخوبی سمجھ لیا ہے اور اب مبینہ طور پر سر پر تولیہ رکھ کر اور کانوں میں انگلیاں ڈال کر بیٹھ گئیے ہیں ۔کچھ یورپی ممالک تو ادھر اودھر دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہے ہیں کہ ہمارا تو اس معاملے سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔روس کےلئے امریکہ دنیا میں ہاری ہوئی جنگوں کا چمپئن ہے ،اور خود امریکی بھی اپنی شکست خوردگی کو برا نہیں سمجھتے ۔وجہ اس کی ان کا سرمایہ دارانہ طرزفکر و عمل ہے ، امریکہ جانتا ہے کہ دنیا کی ہر جنگ اس کی ڈیفنس انڈسٹری کو حیات نو عطا کر دیتی ہے۔لہٰذا یوکرین کی ہزیمت اور تکلیف سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ان کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے گا۔روس کےلئے امریکیوں کے پاس بدعاﺅں اور مختلف قسم کی پابندیوں کا حربہ موجود ہے ،اور ان دونوں حربوں کو روسی پرکاہ جتنی اہمیت دینے پر بھی تیار نہیں ہیں ۔جب امریکی پابندیاں ایران کا کچھ بگاڑ نہیں پائیں ،تو روس کا کیا کرلیں گی ۔اس ضمن میں امریکی طرزعمل دیہی پرائمری اسکول کے بچے کی غصے میں کی گئی کٹی جیسا ہے ، جس کا اعلان وہ ہاتھ کی چھوٹی انگلی ہوا میں بلند کر کے کرتا ہے جس سے مراد ہوتی ہے کہ جا میں نہیں بولتا۔یا پھر امریکہ کا طرزعمل نہایت بوڑھی عورتوں جیساہے ، جن کا چڑچڑاپن ان کے درد کا درماں نہیں بن سکتا ۔ یوکرین کے صدر کے مطابق انہوں نے مغربی ممالک کے رہنماﺅں سے استفسار کیا کہ کیا اس جنگ میں آپ ہمارے ساتھ ہیں؟ جس کے جواب میں مغربی ممالک کا جواب تھا کہ ہم اخلاقی طور پر آپ کے ساتھ ہیں ۔اور ساتھ یہ بھی کہ وہ یوکرین کو نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں بنائیں گے ۔ بطور ایک پاکستانی میں اخلاقی حمایت کی حقیقت کو اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتا ہوں ۔ ایسی اخلاقی حمایت سے ضمیر مطمعن ہو تو ہو ، اور کچھ نہیں ہوتا ۔دراصل بین الاقوامی سیاست میں ایسی اخلاقی حمایت کا مطلب کسی قسم کی بھی عملی حمایت اور مدد سے صاف انکار ہوتا ہے اور روسی حملے کے بعد مغربی ممالک نے یوکرین کے ساتھ یہی کیا ہے۔ایس طرح کی اخلاقی حمایت کو ستم ظریف دنیا کی سب سے بڑی بد اخلاقی قرار دیتا ہے۔اب ا یسی صورت حال میں پاکستان کو اپنی۔ بین الاقوامی جبلت پر قابو رکھنا ہوگا ۔ ہم ایک آزاد و خودمختار ریاست ہیں۔ہمارے تمام زعما کو ہر روز تین سو بار یہ بات دھرانی چاہئیے ۔ دوسرے ایک نہایت گرم توے پر انگلی لگانے کی ابھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جہاں نو کی تعمیر و تشکیل کی صورت گری ہونے دیں اور کچھ دیر اسٹیڈیم کی کرسی پر بیٹھ کر کھیل دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں ۔اب کی بار ہمیں اپنے قریب کی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئیے ۔دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ روسی صدر پوٹن کے سامنے نیٹو ” ناٹی ” بن جاتی ہے، جبکہ جو بائیڈن بوجہ ضعف و پیری منہ زبانی ادھوری دھمکیوں پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں اور اب تو یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ۔پابندیاں روس کو ہلکی سی خارش بھی نہیں کر پائیں گی ۔دنیا اب اسی کی دہائی میں واپس نہیں جاسکتی۔اور نہ ہی یوکرین میں کوئی "جہاد ” شروع کیا جا سکتا ہے ۔اب نیٹو کو اسی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑے گا۔یاد رکھنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جنگ کا مطلب یہی ہے کہ حضرت انسان نے بیسویں صدی سے کچھ نہیں سیکھا ۔ اکیسویں صدی نے حضرت انسان کو اس کے اصل دشمن وباں اور بیماریوں کی طرف متوجہ کیا ، اور سبق دیا کہ وبا نہ جغرافیائی سرحدوں ک خیال کرتی ہے ، نہ رنگ و نسل اور زبان کا ، وبائیں مذہب اور نظریہ بھی دریافت نہیں کرتیں،ان کے خلاف انسان کو بطور انسان یک جا ہو کر لڑنا ہو گا ۔پر حضرت انسان سمجھے تو کیونکر سمجھے؟ اور پاکستان کےلئے سیکھنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ بطور مملکت غیر جانبدار رہنے کا مظاہرہ کرے ، تنازعات پر تبصرے کرنے سے گریز کرے ۔ اگر ترجمانوں کو اپنی دو انگلیوں سے زبان پکڑ کر رکھنے کے احکامات جاری کر دئیے جائیں ، تو پاکستان بہت ساری قباحتوں اور وضاحتوں سے بچ سکتا ہے۔ اس جنگ میں نقصان یوکرین کا ہو رہا ہے ، روس بھی حالت سکون میں ہر گز نہیں ،لیکن مشترک طور پر انسان ہلاکت خیزی کا سامنا کر رہا ہے ۔ جنگ میں تباہی گناہگاروں اور بے گناہوں، مردوں اور عورتوں ، بچوں اور بڑوں کی تمیز نہیں کرتی ۔کاش دونوں ملک اس بات کو سمجھ جائیں اوریہ بھی سیکھ لیں کہ دور کے دھوکے کی نسبت قریب کی دوستی زیادہ اچھی ہوتی ہے ۔یوکرین کو چارے کے طور پر استعمال کر کے امریکہ نے بہت سارے ملکوں کو ایک آسان سبق تو دے ہی دیا ہے۔یہ بڑے ملک اتنے مکار ضرور ہیں کہ غصے اور دیوانگی میں بھی ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے۔آس پاس کھڑے کسی کمزور کو تھپڑ مار کر غصہ نکال لیتے ہیں۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri