تحریر: طارق خان ترین
ایمنسٹی انٹرنیشنل، جو کبھی انسانی حقوق کا غیر جانبدار محافظ سمجھا جاتا تھا، پاکستان کے معاملے میں یکطرفہ بیانیہ نگار بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی مسلسل توجہ ’’لاپتہ افراد‘‘ پر مرکوز رہتی ہے جبکہ وہ 24 کروڑ عوام کی قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے جنہوں نے دہائیوں تک دہشتگردی کا سامنا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کے ہاتھوں 94 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں جن میں اساتذہ، طلبہ، مزدور، عام شہری، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار شامل ہیں۔ معاشی طور پر بھی پاکستان کو بطور فرنٹ لائن اتحادی 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، مگر ایمنسٹی پاکستان کی اس مہذب اور مہنگی جنگ پر خاموش ہے۔
پاکستان نے بارہا اقوامِ متحدہ میں ڈوزیئر جمع کروائے جن میں بھارت کی مسلسل مداخلت اور بلوچستان میں فتنۃ الہندستان(بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے، بی آر اے ایس) اور خیبر پختونخوا میں فتنۃ الخوارج (ٹی ٹی پی) کے ذریعے دہشتگردی کی سرپرستی کو بے نقاب کیا گیا۔ لیکن ایمنسٹی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے ’’لاپتہ افراد‘‘ کے ایجنڈے کو تقویت دیتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) جیسے بھارتی آلہ کاروں کو معصوم بنا کر پیش کرنا اسی رویے کی مثال ہے۔ کیا ایمنسٹی جانتی ہے کہ کلبھوشن یادیو، گلزار امام شمبے یا مولوی منصور کون ہیں؟ کیا اسے یہ خبر ہے کہ بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کو امریکہ، برطانیہ، چین، ایران اور اقوامِ متحدہ نے باضابطہ دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے؟ مگر ایمنسٹی کی آنکھیں اس وقت بند ہو جاتی ہیں جب دہشتگردی پر بھارت اور اس کے پراکسیز کے نشانات ملتے ہیں۔
ایمنسٹی کے ’’لاپتہ افراد‘‘ کے بیشتر نام بعد میں دہشتگرد تنظیموں کی فہرستوں میں نکلتے ہیں۔ نور زمان بلوچ اور ندیم، جو جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے، کو بی وائی سی نے ’’لاپتہ‘‘ قرار دیا۔ حمل فتح بلوچ (گوادر پرل کانٹی نینٹل حملہ آور) اور کریم جان بلوچ (جسے اس کے اہل خانہ نے خود دہشتگرد تنظیموں کا رکن تسلیم کیا) کو بھی بے گناہ ظاہر کیا گیا۔ جہانزیب مینگل عرف بالاچ دو سال نوشکی میں سرگرم رہا اور مارچ 2024 میں ہلاک ہوا، مگر اسے بھی ’’لاپتہ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔
اگست 2024 میں طیب بلوچ عرف لالا لسبیلہ آپریشن میں مارا گیا، لیکن بی وائی سی اور ماما قدیر نے اسے ’’جبری لاپتہ‘‘ قرار دیا۔ اسی طرح کامران بلوچ، جسے مشکے سے اغوا شدہ بتایا گیا، بعد میں بی ایل ایف نے اپنا جنگجو تسلیم کیا۔ عید محمد عرف شکاری، سینئر کمانڈر، اور انجینئر ظہیر بلوچ کو ’’جعلی مقابلے‘‘ میں مار دیا گیا مگر بعد میں جھوٹ بے نقاب ہوا۔ ظہیر خود چند ماہ بعد ایران میں دوبارہ منظر عام پر آگیا۔ عبدالمالک بلوچ (جو داخلی لڑائی میں مارا گیا) اور عبدالودود ستک زئی (تربیت یافتہ جنگجو) کو بھی معصوم قرار دیا گیا۔ یہ تضادات محض اتفاق نہیں بلکہ منظم جھوٹ ہیں۔
سب سے مضبوط ثبوت گرفتاریاں اور اعترافات ہیں۔ کلبھوشن یادیو (بھارتی نیول افسر)، گلزار امام شمبے، سرفراز بنگلزئی، نجیب اللہ اور عبدالراشید سب نے تسلیم کیا کہ ’’لاپتہ افراد‘‘ کا پروپیگنڈہ دہشتگردی اور غیر ملکی فنڈنگ کو چھپانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ایمنسٹی کا انہیں مظلوم بنا کر پیش کرنا محض غلط نہیں بلکہ خطرناک حد تک گمراہ کن ہے۔
پاکستان نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ جبری گمشدگیوں پر تحقیقاتی کمیشن (COIED) مارچ 2011 سے اگست 2025 تک 10,618 کیسز کی تحقیقات کر چکا ہے، جن میں سے 8,873 (83.56 فیصد) حل ہو چکے ہیں۔ اس کا موازنہ بھارت سے کریں جہاں ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق ہر گھنٹے میں 88 افراد لاپتہ ہوتے ہیں، یعنی روزانہ 2,130 اور ماہانہ 64,851۔ پھر بھی ایمنسٹی بھارت پر خاموش ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2020 تک بھارت میں 4 کروڑ 58 لاکھ خواتین لاپتہ تھیں، مگر ایمنسٹی اسے نظر انداز کرکے پاکستان کے خلاف مہم چلاتی ہے۔
یہ دوہرا معیار ایمنسٹی کے تعصب کو بے نقاب کرتا ہے۔ بھارت کی زیادتیوں پر خاموشی اور بی وائی سی جیسے پراکسیز کے پروپیگنڈے کی تائید نے ایمنسٹی کی ساکھ کو داغدار کر دیا ہے۔ پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ایسے دشمن کا سامنا کر رہا ہے جو دہشتگردی پر پروان چڑھتا ہے اور بھارت سے مالی و عسکری مدد پاتا ہے، مگر دنیا کے سامنے پاکستان ہی مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی کا ’’مظلومیت کا بیانیہ‘‘ عالمی سطح پر بکتا ضرور ہے لیکن یہ آدھا سچ ہے جو اصل حقیقت کو چھپاتا ہے۔ ایمنسٹی کے بتائے گئے بیشتر ’’شہری‘‘ کسی نہ کسی دہشتگرد نیٹ ورک کا حصہ نکلے جنہوں نے خودکش حملے اور خونریز وارداتیں کیں۔ پاکستان دہشتگردی سے حالتِ جنگ میں ہے؛ جو دشمن کے ساتھ ہیں انہیں ’’معصوم‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خاندانوں کا دکھ اپنی جگہ لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ ریاست دشمن کے مددگاروں کو جوابدہ بنائے۔
پاکستان تسلیم کرتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل ہونا چاہیے، مگر دہشتگردوں کو رومانوی رنگ میں مظلوم بنا کر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب تک ایمنسٹی کہانی کے دوسرے رخ کو تسلیم نہیں کرے گی—یعنی خون آلود دہشتگردی کی حقیقت کو—وہ سچ کو مسخ کرنے اور عالمی انسدادِ دہشتگردی کی کاوشوں کو نقصان پہنچانے میں شریک جرم رہے گی۔