بھارت کی ریاست منی پور میں دو ہفتوں سے جاری فسادات میں اب تک 75 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ منی پور کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ ہے جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش میں 31 مئی تک توسیع کر دی گئی ہے۔ حکام کو فساد کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ منی پور کے وزیراعلیٰ بیرن سنگھ کا کہنا ہے کہ فورسز کے کریک ڈاﺅن میں اب تک 40 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ دو روز کے دوران دو پولیس اہلکار بھی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے مطابق دہشت گرد عام شہریوں کے خلاف ایم 16‘ اے کے 47 اور سنائپر گنز استعمال کر رہے ہیں اور انہوں نے متعدد دیہاتوں کو بھی نذرآتش کر دیا ہے۔ بلوائیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے جس میں فوج اور دیگر فورسز کی بھی مدد لی گئی ہے۔ فورسز کی طرف سے اب تک 40 دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ بھارتی ریاست منی پور میں بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا، وزیراعلیٰ نونگتھم بم بیرن سنگھ نے بھارتی حکومت کی طرف سے الحاق کا معاہدہ جعلی قرار دے ڈالا۔منی پور کی جلا وطن حکومت کے وزیر اعلیٰ نونگتھم بم بیرن کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں واضح کیا گیا ہے کہ آزادی ایکٹ 1947ءکے تحت منی پور کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ بھارت نے الحاق شدہ ریاستوں کو صوبوں میں بدل کر آزادی ایکٹ 1947ءکی خلاف ورزی کی۔ منی پور میں آزادی اور بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ 1949ءسے چل رہا ہے۔ 1980ءسے منی پور میں علیحدگی کی جدوجہد جاری ہے جس میں ہزاروں بھارتی فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ 1972ءمیں منی پور کو ریاست کا درجہ دے دیا گیا تھا۔بھارت میں اس وقت 15 سے زائد ریاستوں میں آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، آج کی یہ نفرت، تقسیم اور ہتک آمیز رویہ بھارتی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارت میں 100سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ دراصل اپنی ان لا تعداد تنظیموں پر پردہ ڈالنے اور حقائق چھپانے کے لئے وہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے۔بھارت کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سمیت بھارت میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے جن انتہا پسند تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی ان میں پیپلز گوریلا آرمی، پیپلز وار گروپ نیکسلائٹس، تامل نیشنل ٹروپس، آصف رضا کمانڈو فورس رن ویرسینا ، ایل ٹی ٹی ای وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے باوجود علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں انڈر گراو¿نڈ جاری رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ٬ بہار٬ مغربی بنگال٬ مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔ گورکھا ٹائیگر فورسز اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں سے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے خود پریشانی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکام اپنے ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کاروائیوں کے اصل حقائق تک پہنچنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس٬ بابری مسجد کے انہدام٬ گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماو¿ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران ماو¿ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے ۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔