کالم

بھارتی سکولوں میں مسلمانوں کے خلاف نئی سازش

انڈیا خطے میں ایک ایسا ملک ہے جو انتہا پسندی اور شرارت کا استعارہ بن کر ابھر رہا ہے۔ خصوصاً مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندو ازم جس طرح جڑیں پکڑ چکا ہے وہ یقیناً مذہبی اقلیتوں کے لئے تباہ کن ہے۔مسلمان انڈیا کی سب سے بڑی اور پر امن اقلیت ہے ۔تقسیم کے وقت وہاں رہ جانے والے مسلمانوں نے جن سہانے سپنوں کی آس پر بھارت کو بطور ملک اختیار کیا تھا وہ اب ان کے لئے پچھتاوا بن کر سامنے آیا ہے۔ہر گزرتے دن کےساتھ مسلم کمیونٹی کسی نئے انتہا پسندی کے وار کا شکار ہوتی ہے۔اگرچہ ہندوستان کے سنجیدہ حلقے لبرل ازم کا بہت پرچار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا طوفان بے قابو ہے۔ حالیہ واقعات ہندوتوا انتہا پسندی اور تنگ نظری کا ٹھوس ثبوت ہیں۔ابھی حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی دیہی علاقوں کے سکولوں میں ہندو اساتذہ ہندوتوا کی فاشسٹ پالیسیوں کا پرچار کرکے معصوم ذہنوں کو آلودہ کر رہے ہیں۔ بطور خاص مسلمانوں کے خلاف پر تشدد واقعات معمول بن چکے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نہم جماعت کے امتحانی پیپر میں بھارتی مسلمانوں کی دہشت گردی پر مضمون بطور سوال شامل کیا گیا، جس ہر نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اسی امتحان میں ہندوتوا کے پیروکار ٹیچر نے پاک بھارت جنگ کی تیاری کے لیے بھی پرچار کیا۔اس سے قبل بھی ایک سکول ٹیچر نے ایک مسلمان بچے کو ہندو بچوں سے تشدد کروایا۔یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہندوتوا کے پیروکار انتہائی متعصبانہ سلوک اپنائے ہوئے ہیں، اب عالم یہ ہے کہ صرف آر ایس ایس کے پیروکار ہی محفوظ ہیں جبکہ نچلی ذات کے ہندو اور دیگر اقلیتیں آئے دن بدترین ظلم اور تشدد کا شکار ہورہی ہیں۔ سکول انتظامیہ کے اس رویہ پر مقامی مسلمانوں نے احتجاج کرتے ہوئے سکول کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ سکول نے معافی مانگ لی ہے اور متنازعہ سوالیہ پرچہ میں نادانستہ طور پر لفظ مسلم استعمال کیا گیا جبکہ امتحان منسوخ کردیا گیا ہے۔ اخبار دی ڈپلومیٹ کی رپورٹ کے مطابق پیراگراف کے ایک جملے میں کہا گیا کہ یہ ایک سوچرشیلتا کی پرنالی ہے جس میں بھارتیہ مسلم اتنک واد، لشکر طیبہ، القاعدہ، طالبان اور اسلامی ریاست کے بارے میں سوچنا سنگٹھن شامل ہیں۔یعنی یہ ایک نظریے کا حصہ ہے جس میں ہندوستانی مسلم دہشت گردی، لشکر طیبہ، القاعدہ، طالبان اور اسلامی سیاست کی مختلف تنظیمیں شامل ہیں۔پیراگراف میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت ہند کو جموں و کشمیر کے مسئلے پر دو طرفہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ جنگ لیے تیار رہنا چاہیے۔حیرت کی بات یہ ہے پہلے تیر چلا دیا جاتا ہے بعد میں عذر تلاش کر کے مسلم کمیونٹی کو رام کرنے سوچی سمجھی کوشش کی جاتی ہے۔قبل ازیں جس مسلمان بچے کو ہندو بچوں سے پٹوایا گیا۔اس کا کیس بھی زیر سماعت ہے۔پیر 2 ستمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے مظفر نگر سکول والے معاملے سے نمٹنے کے لیے اتر پردیش حکومت اور پولیس پر سخت نکتہ چینی کی، جہاں ایک سکول ٹیچر نے دوسرے طالب علموں کو ایک نوجوان مسلم لڑکے کو بار بار تھپڑ مارنے کی ترغیب دی۔یہ معاملہ بھی اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب اس واقعہ کی کسی طرح ویڈیو وائرل ہو گئی۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں نوجوان لڑکے کو مسلسل روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر اور اس میں فرقہ وارانہ منافرت کے الزامات کا حوالہ نہ ہونے کی مذمت کی اور کہا کہ اس کیس کی جانچ پڑتال ایک سینئر آئی پی ایس پولیس افسر سے ہونی چاہیے۔دی وائر کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم FIR درج کرنے کے طریقے پر شدید اعتراض کرتے ہیں۔ والد نے بیان دیا تھا کہ مذہب کی وجہ سے ان پر الزامات لگائے گئے اور مارا پیٹا گیا۔ لیکن ایف آئی آر میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ جس طرح سے یہ ہوا ہے اس سے ریاست کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہیے۔انڈین ریاست یوپی میں تعلیم پہلے ہی برسوں سے بحران کا شکار ہے لیکن ہندوتوا کے رجحان نے اس میں پیچیدگیوں کی ایک اور سطح کو بڑھا دیا ہے۔گزشتہ ہفتے اخبار دی ڈپلومیٹ کے لیے ریاست یوپی میں کی گئی ایک تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ایکل فا¶نڈیشن کے زیر انتظام نجی سکولوں نے بچوں کو ہندو برتری کی تبلیغ کرنے والی تفرقہ انگیز سوچ کو اپنانے پر مجبور کیا۔اگرچہ انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان سے بھی زیادہ ہے لیکن وہاں مسلمان اقلیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ہندو¶ں کی متعصبانہ سوچ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔انڈیا اپنے سیکولرازم کے دعوے کے باوجود سیکولر نہیں بن سکا۔ ہندوتوا کا راج مضبوطی سے جڑیں پکڑ رہا ہے جو مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مزید پروان چڑھ رہا ہے۔ مودی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف ایک منظم محاذ کھول رکھا ہے۔ہندو انتہا پسند عناصر اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ اقلیتوں کو خصوصاً مسلمانوں انڈیا میں سکھ کا سانس نہ لینے دیں۔آر ایس ایس کے غنڈے اپنی یہ جنونی ذمہ داری خوب نبھا رہے ہیں اور مسلمانوں پر ذہنی اور جسمانی تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے