آئینی لحاظ سے بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذہبی طبقات کو مساوی شہری کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر آزادی سے لے کر آج تک ہندوﺅں نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزرویہ اپنایاوہ اس امر کا اعلان ہے کہ بھارت کا سیکولر ازم ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ سردار پٹیل جسے بی جے پی اپنا نظرثانی گورو تسلیم کرتی ہے ہمیشہ دوغلی سیاست پر عمل پیرا رہا۔ بھارت میں انتہا پسندوں نے اپنے قومی ہیرو اور قوم کے باپو مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔آر ایس ایس کی ذیلی جماعت بی جے پی نے ایودھیا میں ساڑھے پانچ سو برس پرانی بابری مسجد کو شہید کرا دیا۔ کہا گیا کہ یہ ہندو اوتار رام کی جنم بھومی ہے۔ رام کی جائے پیدائش پہلے ہی بھارت کے کئی علاقوں میں موجود ہے۔ اس مسجد کی شہادت اور پھر اس پر دو عشروں سے زائد عدالتی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھارتی اعلیٰ ترین عدالت آئین اور قانون کی بجائے اکثریتی آبادی کے دباﺅ پر فیصلے کر رہی ہے۔ یہ انتہا پسند ہی تھے جنہوں نے آر ایس ایس جیسی دہشت گرد تنظیم بنائی۔ اس تنظیم نے اپنے جیسی سوچ رکھنے والے دوسرے گروپوں اور جماعتوں سے رابطے قائم کئے۔ سنگھ پریوار کہلانے والے یہ دہشت گرد گروپ ہندو اکثریت کو سماجی اور سیاسی اعتبار سے برتری دلانے کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھارت سے نکل جانے یا ہندو دھرم قبول کرنے پر مجبورکرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں مذہبی منافرت، جنونیت اور انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے۔ اسلاموفوبیا کی بدترین شکل ہندوستان میں نظر آ رہی ہے۔ بھارتی اسلاموفوبیا نہ صرف عالمی امن بلکہ خود بھارت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے بھارت میں یوں تو سکھوں‘ عیسائیوں‘ بدھوں‘ دلتوں اور دیگر مذہب کے لوگوں کے متعلق بھی کوئی خیر خواہانہ جذبات دکھائی نہیں دیتے مگر خاص طور پر مسلمان اکثریتی آبادی کے انتہا پسند عناصر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔بھارتی مسلمان نہتے اور بے بس ہیں۔ انہیں کرائے پر گھر نہیں دیے جاتے‘ کسی خاص علاقے میں مکان خریدنے کی اجازت نہیں۔ وہ راہ چلتے ہندو غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے وقفے وقفے سے دو رپورٹس جاری کیں ایک رپورٹ میں بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور غیر انسانی سرگرمیوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا‘ دوسری رپورٹ میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا کہ بھارتی معاشرے میں عدم برداشت بڑھ کر انتہا پسندی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اقوام متحدہ نے اسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے منافی قرار دیا۔ امریکی کمیشن مذہبی آزادی کی رپورٹ میں بھارت کو پہلی مرتبہ اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے بھارت کو سی پی سی ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ بھارت 2019 میں اور اس کے بعد مذہبی آزادی کے نقشے میں تیزی سے نیچے آیا۔ سالانہ رپورٹ میں متنازع بھارتی شہریت بل پر شدید تنقید کی گئی۔ 2019 میں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔ بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی تنقید کی گئی۔ امریکی کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے پر بھی تنقید کی۔بھارت کے شہر ممبئی میں مذہبی منافرت پھیلانے والے شہری کو مسلمان لڑکے سے سبزی لینے سے انکار اور نفرت انگیز گفتگو کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد گرفتار کرلیا گیا۔ 51 سالہ شہری نے آرڈر کے ذریعے سبزی منگوائی اور جب پتہ چلا کہ آرڈر پر سامان پہنچانے والا لڑکا مسلمان ہے، تو انہوں نے سامان لینے سے انکار کردیا۔ممبئی کے شہری کو مسلمان ملازم کے حوالے سے اسلام دشمنی پر مبنی ویڈیو پیغام نشر کرنے کے چند گھنٹوں بعد گرفتار کرلیا گیا۔بھارت میں گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں کے گھروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا اور مذہبی منافرت عروج کو پہنچی تھی جس پر امریکا سمیت دیگر ممالک نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔بعد ازاں دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا اور ہزاروں افراد متاثرہ ہوئے جبکہ ہسپتالوں میں مسلم منافرت کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے۔ بھارتی ریاست گجرات کے بڑے شہر احمد آباد کے سول ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں اور مشتبہ کیسز کو ان کے عقائد کی بنیاد پر الگ الگ وارڈز میں رکھنے کا انکشاف ہواتھا۔ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر گنونت ایچ راٹھوڑ نے کہا کہ ریاستی حکومت کے احکامات کے مطابق ہندو اور مسلمان مریضوں کے لیے الگ الگ وارڈز بنائے گئے ہیں۔