یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارت کی کشمیر پالیسی ہمیشہ تضادات، جھوٹ اور بین الاقوامی وعدہ خلافیوں سے بھری رہی ہے۔ کبھی ”جمہوریت” کے نام پر، تو کبھی ”انسدادِ دہشت گردی” کے پردے میں، بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی۔ مبصرین کے مطابق نئی دہلی کی یہ دوغلی حکمتِ عملی نہ صرف کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی نفی کرتی ہے بلکہ عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی ایک منظم مہم بھی ہے۔حالیہ دنوں میں برطانوی پارلیمنٹ میں ”ارلی ڈے موشن” (Early Day Motion) کے ذریعے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ارکانِ پارلیمان کسی مخصوص مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ تاہم، اب تک صرف تین ارکان — باب بلیک مین، لوئی فرنچ اور جم شینن — نے اس پر دستخط کیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس محدود حمایت سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ کے بیشتر ارکان بھارتی مؤقف سے متفق نہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ باب بلیک مین طویل عرصے سے بھارت نواز مؤقف کے حامل ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر، آرٹیکل 370 کی منسوخی، اور کشمیری پنڈتوں کے نام نہاد ”اخراجی دن” جیسے بھارتی بیانیوں کو برطانوی ایوانوں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں دراصل بھارتی حکومت کی لابنگ مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد دنیا بھر میں کشمیر کو بھارت کا ”داخلی معاملہ” ظاہر کرنا ہے۔یہ امر ناقابلِ تردید ہے کہ 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ابتدائی طور پر آزادی کو ترجیح دی تھی۔ تاہم، بھارتی دباؤ اور فوجی یلغار کے نتیجے میں اُن سے ایک متنازع ”انسٹرومنٹ آف ایکسیشن” (Instrument of Accession) پر دستخط کروائے گئے۔ مشہور برطانوی مؤرخ الاسٹر لیمب کے مطابق یہ
دستاویز دراصل ایک خالی کاغذ پر دستخط تھی جس پر بعد میں تاریخ اور شرائط درج کی گئیں۔ لیمب اپنی کتاب *”Kashmir: A Disputed Legacy”* میں لکھتے ہیں کہ بھارت نے فوجی کارروائی دستاویز کی قانونی تکمیل سے قبل ہی شروع کر دی تھی — جو اس کی بدنیتی کا واضح ثبوت ہے۔مزید برآں، اس دستاویز میں اگست کا مہینہ تحریر تھا جسے بعد ازاں کاٹ کر اکتوبر لکھا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حملے کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ تمام شواہد پاکستان کے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ بھارت نے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کیا اور الحاق کا دعویٰ محض قانونی جواز پیدا کرنے کے لیے تراشا۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948ء میں قرارداد نمبر 47 منظور کی جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ عوامی رائے شماری (Plebiscite) کے ذریعے ہوگا۔ بعد ازاں، قرارداد 91 (1951) اور 98
(1952) میں بھی اسی مؤقف کی توثیق کی گئی
اور دونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ اپنے فوجی دستوں کی تعداد کم کر کے آزادانہ ماحول میں رائے شماری کو ممکن بنائیں۔تاہم، بھارتی حکومتوں نے نہ صرف ان وعدوں سے انحراف کیا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیر میں فوجی جبر کو بڑھا دیا۔ بھارتی افواج کی 9 لاکھ سے زائد نفری آج بھی وادی میں موجود ہے، جو کسی بھی ”جمہوری ملک” کے دعوے کی نفی کرتی ہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے متعدد مواقع پر کشمیری عوام سے رائے شماری کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے یہ بیانات نہ صرف اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں بلکہ بھارتی وزارتِ خارجہ کے اپنے دستاویزی ذخیرے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ششی تھرور کی کتاب *”Nehru: The Invention of India”* میں بھی اس وعدے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ مگر بعد ازاں، جیسے ہی بھارت نے فوجی اور سیاسی طور پر وادی پر گرفت مضبوط کر لی، وہ وعدے محض الفاظ بن کر رہ گئے۔اسی تناظر میں، بی بی سی کی ایک رپورٹ (ستمبر 2023ئ) کے مطابق، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو منظم طور پر خوفزدہ کرنے اور خاموش کرانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں بھی بھارتی ریاستی سنسرشپ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سفارتی ماہرین کے مطابق یہ وہی حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے بھارت دنیا سے سچ چھپانا چاہتا ہے۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ بھارت کی کشمیر پالیسی وقت کے ساتھ ساتھ” جمہوریت” سے”جارحیت”میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کبھی نہرو کے وعدے، کبھی مودی کی آئینی منسوخیاں — ہر قدم نے کشمیریوں کے زخموں کو گہرا کیا۔ آج بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، تاریخی حقائق اور عالمی قانون بھارت کے خلاف کھڑے ہیں۔حالانکہ کشمیر کی سچائی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا، نہ قانونی طور پر، نہ اخلاقی طور پر۔ بھارت کی فریب زدہ پالیسیوں کے باوجود، کشمیری عوام اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب تک دنیا انصاف کی آواز سنتی رہے گی، کشمیر کے حقِ خودارادیت کا مقدمہ زندہ رہے گا۔
کالم
بھارت کا دوغلا بیانیہ: کشمیر سے اقوامِ متحدہ تک۔!
- by web desk
- نومبر 14, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 10 Views
- 4 گھنٹے ago

