کالم

بھارت کےساتھ تجارت بحالی کی خواہش

کشمیری عوام اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ جنگ لڑتے ہوئے انہیں تقریبا ایک سو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے قیام پاکستان سے قبل کشمیری مسلمان ڈوگرہ راج کے خلاف بر سر پیکار تھے اور آج ہندو سامراج کے خلاف وہی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ڈوگرہ راج کے دوران بھی کشمیری مسلمانوں کو بد دیانت ہندو بنیا سے لڑنا پڑتا تھا اور آج بھی وہ فسطائی ہتھکنڈوں کے حامل ہندو سیاست دانوں اور بھارتی فوج کے خلاف بر سر پیکار ہیں کشمیری مسلمان جس استقلال اور بہادری سے اپنی جنگ آزادی لڑ رہے ہیں ان کی یہ بہادری اور دلیرانہ جدوجہد تاریخ میں انمٹ سنہری حروف سے لکھی جائے گی کیونکہ دنیا کی تاریخ میں طویل ترین جدوجہد آزادی ہے جس میں کشمیری مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہے آج ہندو سامراج کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کےلئے جدید ترین ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے’دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہورہی ہیں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالے کشمیری عوام کی آواز دبانے اور انہیں کچلنے کےلئے ننگ انسانیت فوجی کارر وائیاں کی جارہی ہیں پوری مقبوضہ وادی کو وحشت وبربریت کی علامت بنا دیا گیا ہے بھارتی پولیس اور فوج جدید ترین فسطائی حربوں سے کشمیری حریت پسندوں کی نسل کشی کررہی ہے مگر بھارت کے تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود نہتے کشمیری حریت پسند عوام بھارت کی جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج اور پولیس کا بڑی بہادری اور جانبازی سے مقابلہ کررہے ہیں اور ان کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی دنیا بھر کے زعما کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی سے متاثر ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں امن کےلئے مسئلہ کشمیر کا حل بہت ضروری ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات اور کئی حل طلب مسائل کی وجہ سے نہ صرف خطے میں غربت اور بیروز گاری بڑھتی جارہی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن وخوشحالی کا خواب بھی ایک سراب بن کر رہ گیا ہے جنوبی ایشیا میں بالعموم اور پاکستان اور بھارت کے درمیان بالخصوص کشیدگی اور تنا کی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر ہے جسے حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے مابین دوستانہ تعلقات قائم ہوسکتے ہیں نہ علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے ،بھارت سے تجارت ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے’پاکستان کی ریاست میں نوے کی دہائی سے ہی اس معاملے پر دو سوچیں اور دونوں کے درمیان ایک کشمکش کی سی کیفیت موجود رہی ہے نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کا معاملہ ایک گرما گرم بحث کا موضوع رہا جنرل مشرف کے دور میں دوبارہ اس مسئلے نے سر اٹھایا اور دونوں ملکوں میں تجارت اوراس کے فوائد کی ایک دلکش منظر کشی کی جاتی رہی پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے بعد 1948-49میں بھارت اور پاکستان کی باہمی تجارت 70فیصد تھی جس میں 63فیصد بھارت سے پاکستان ایکسپورٹ شامل تھی لیکن 1965کی جنگ کے بعد پاک بھارت تجارت پر پابندیاں عائد کردی گئیں تاہم 1974 میں شملہ معاہدے کے بعد یہ پابندیاں ہٹادی گئیں بھارت نے پاکستان کو 1995-96میں انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دیا لیکن نان ٹیرف رکاوٹوں کے باعث باہمی تجارت کو فروغ نہ دیا جاسکا دسمبر 1995میں سارک ممالک جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں نے جنوبی ایشیائی ترجیحی تجارتی معاہدے (SAPTA)پر دستخط کئے جس کے تحت سارک ممالک کے مابین سینکڑوں مصنوعات کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی لیکن جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممبر ممالک پاکستان اور بھارت میں کشیدہ سفارتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے ایشیائی ریجنل بلاک دیگر ریجنل بلاکس کی طرح باہمی تجارت کو فروغ نہ دے سکا نومبر 2011 میں پاکستان نے بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا جس کیلئے بھارتی وزیر تجارت آنند شرما اسلام آباد اور کراچی آئے لیکن حکومت پاکستان نے اپنا فیصلہ بدل دیا جس پر بھارت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ پانچ اگست 2019کو کشمیر پر بھارت کے یکطرفہ فیصلے کے بعد حکومت نے بھارت سے ہر قسم کی تجارت ختم کرنے کا اعلان کیا اور سیاسی ،سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی کےلئے پانچ اگست کے فیصلے کو واپس لینے کی شرط عائد کی بھارت کی طرف سے فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے بعد ہی پاکستان کا موسٹ فیورٹ نیشن کا سٹیٹس ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس فیصلے سے پاکستان کی درآمد وبرآمد پر محصولات میں دوسوفیصد کا اضافہ ہوگیا تھا یوں پاکستان کے ساتھ تجارت پر پابندی نہ لگانے کے باوجود ڈیوٹی میں اضافہ کرکے تجارتی عمل کو مشکل تر بنا دیا گیامگر اس کے چند ماہ بعد ہی پانچ اگست کے فیصلے کے بعد پاکستان نے عملی طور پر تجارت ہی بند کر دی۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو اسرائیل کی سطح پر لانے کا مطلب تجارت کی مکمل بندش تھا۔اس سخت فیصلے میں عمران خان کی ذاتی سوچ وفکر کا گہر ادخل تھا اور انہیں یہ قلق تھا کہ بھارت نے ان کی اچھے تعلقات کی خواہش کو احترام نہیں دیا ۔اس سے عمران خان کی انا زخمی ہو کر رہ گئی اور انہوںنے بھارت کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کو پانچ اگست کے فیصلے کی واپسی سے مشروط کیا عمران خان کو اس معاملے میں عرب دوستوں کی طرف سے شدید دباﺅ کا سامنا رہا وہیں پاکستان کے مضبوط سسٹم میں کچھ طاقتور قوتیں بھی اس قدر سخت گیری سے خوش نہیں تھیں بھارتی حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں ارض پاک کیخلاف سازشوں’مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی’ انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں اور ریاست پر اپنا غاصبانہ قبضہ بر قرار رکھنے کےلئے ہر اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کے پیش نظر وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بھارت کے ساتھ تجارت بحالی کے معاملے کا جائزہ لینے کا عندیہ اسی پالیسی کا حصہ ہے جو تحریک انصاف کے دور اقتدار کے ختم ہونے کے بعد سے اب تک در پردہ جاری ہے شہباز شریف کی قیادت میں نئی اتحادی حکومت بھارت کا سفاک و ظالم چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے خلوص نیت کے ساتھ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں ان کا ساتھ دینے اور تمام عالمی پلیٹ فارموں پر تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کےلئے مودی سرکار پر دباﺅ بڑھانے کےلئے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے بھارت کےساتھ تجارت کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنے کا عندیہ دے رہی ہے تو دو سری جانب بھارت نے پاکستان کےساتھ مذاکرات سے انکار کردیا ہے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ایک بار پھر دہشت گردی کا واویلا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی کو بھول کر بات چیت نہیں ہوسکتی بھارتی وزیر خارجہ نے پرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان کو صنعتی طور پر دہشت گردوں کی سر پرستی کرنےوالا ملک قرار دے دیا ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا موڈ اب دہشت گردوں کو نظر انداز کرنے کا نہیں نہ ہی اب بھارت اس مسئلے کو ختم کرے گا بھارت جسے دہشت گردی کہتا ہے’پاکستانی اور کشمیری اسے جنگ آزادی اور حریت پسندی سمجھتے ہیں بھارت اپنے ایجنڈے پر سختی سے عمل پیرا ہے جبکہ پاکستان کی حکومتوں کا ایجنڈا ہمیشہ ڈ ھیلا ڈھالا رہا ہے امن کی آشا کے شردھا لو کشمیریوں کے خون سے غدارتی کرتے ہوئے امن دوستی اور تجارت بحالی کے گیت گا رہے ہیں تو بھارت پر کیا دبا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پاکستان کی کوئی بات سنے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا تجارت بحالی کے معاملے ہر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا عندیہ تحریک آزادی کشمیر پر کاری ضرب اور بھارت کےلئے کسی بڑی خوشخبری سے کم نہیں بھارت سے تعلقات کو مکمل منجمد رکھنے کی پالیسی میں کسی حد تک نرمی کی خواہش قومی خودکشی کے مترادف ہے بھارت اس وقت کشمیر کو اپنے جبڑوں میں دبائے ہوئے ہے اور وہ کشمیر کو اگلنے کی بجائے نگلنے کی خاطر تمام اقدامات اٹھا رہا ہے ایسے میں بھارت پر واحد دبا پاکستان سے تعلقات کا انجماد ہے اور یہ دباﺅ بھی ختم ہوگیا تو پھر کشمیر کا خدا ہی حافظ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے