تاریخ نے اوراق پلٹنے، ہارڈ اسٹیٹ کا نیا ڈاکٹرائن اس دھرتی کو آگ میں جھونکنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے تازیانہ عبرت بن کر سامنے اور ریاست اب ہر مخالف کا سر کچلنے کے لیے پوری طرح یکسو اور پرعزم کہ برس ہا برس سے اس نے بھارت کی سفارتی، ثقافتی اور عسکری جارحیت برداشت کی مگر اب ہر محاذ پر اس کو منہ روڑ جواب دیا جا رہا ہے۔ کہ بازی اب پلٹ چکی اور بدلتی دنیا بھی بھارت کی عیارانہ سفارت کاری کے فریب میں آنے کو تیار نہیں اور اب جھپٹنے کی باری پاکستان کی۔ یہ درست کہ ڈاکٹرائن کی تبدیلی صبر آزما اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے اور پاکستان سے زیادہ بھلا کس ریاست نے اپنی بقا کے لیے صبرآزما اور کٹھن لمحات دیکھے ہوں گے۔ سفارتی و عالمی محاذ پر اس تبدیلی کا آغاز ایران کو جوہری صلاحیت کے حصول کے حق کی حمایت، ترکیہ آذربائیجان اور پاکستان کے دفاعی معاہدہ جات اور دشمن کے خلاف ایکا، بھارت کے خلاف مدافعانہ پالیسی ترک اور سی پیک کی طاقت ور ممالک کی مخالفت کے باوجود افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک توسیع سے ہو چکا اور اندرونی محاذ پر BLA و ٹی ٹی پی اور ان کے سیاسی و اخلاقی حمایتوں کے خلاف سخت آپریشن کہ جس کا فیصلہ خضدار واقع کے بعد ہی کر لیا گیا تھا اب افغان صدر کی طرف سے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کو خلاف شریعت قرار دینا اور افغان حکومت کا دہشت گردی کے خلاف پاکستان سے بھرپور تعاون ہارڈ اسٹیٹ ڈاکٹرائن کے عملی مظاہر ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک طرف بھارت کی سہ جہتی یلغار تھی تو دوسری طرف بھارتی مفادات کے نگہبان شیخ مجیب اور پھر انکی بیٹی نے پاکستان کے خلاف نفرت، تعصب اور منافقت کا الاو جلا رکھا تھا مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے ایک سابق وزیر اعظم نے 25-2024 میں شیخ مجیب کے نظریات اور اس کی جدوجہد کو حریت کا استعارہ قرار دیکر زخموں پر نمک چھڑکا۔ ادھر برادر اسلامی ملک افغانستان سے بھی ہوائیں گرم اور اندرونی سیاسی انتہا پسندی الگ درد سر۔ چند روز قبل تک عالمی دنیا میں پاکستان مخالف ہر پراپیگنڈا کو پذیرائی ملتی تھی اور پاکستان دنیا کو وضاحتیں دینے پر مجبور۔ شاید وقت نے پلٹنے میں تین دہائیاں لیں اور پھر ترک کہاوت "شر بعض اوقات خیر کے دروازے کھول دیتا ہے "سچ ثابت ہوتی دکھائی دی۔ اندرونی حالات بھی گزشتہ دو سال کٹھن رہے معاشی طور پر تو تھے ہی مگر ریاست کے لیے اصل درد سر پی ٹی آئی کی قومی سلامتی اداروں کے خلاف زور دار مہم رہی۔ اس کو روکنے کے لیے طاقت بھی استعمال کی جاتی رہی اور قانون سازی بھی ہوئی مگر پھر بھی یہ کوششیں عوامی سطح پر کارگر نظر نہیں ا رہی تھیں مگر جب قدرت نے پاکستان کو ان مسائل سے نکالنے کا ارادہ کیا تو موذی دشمن بالواسطہ مملکت خداداد کی مدد کو آیا جبکہ دیوہیکل اور طاقت کے غرور کا سر کچلنے کےلئے ا اللہ نے پاکستان کا انتخاب کیا۔پھر ساری دنیا نے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا محیر العقل منظر دیکھا جس نے بیرونی ہی کیا اندرونی پراپیگنڈا کی دھول بھی بیٹھا دی۔اندریں حالات اب مقتدرہ اس خطہ میں پاکستان کی تزویراتی اہمیت باور،عالمی سطح پر سفارتی تنہائی سے نکلنے اور پائیدار امن اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لیے ملک میں انتہا پسندانہ سیاست و دہشت گرد گروپوں کو کچلنے کا ارادہ کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ کپتان کی تمام تر کوششوں کے باوجود مقتدرہ ان سے مذاکرات کا دروازہ نہیں کھول رہی۔ جبکہ ایک وجہ کپتان کے ڈی این اے میں معاہدہ کی عدم پاسداری کا رویہ اور بے قابو زبان۔ پی ٹی آئی دوستوں کو شاید یہ بات بری لگے مگر فی الوقت انکے پاس اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اور یہ بات اس سے بھی اہم کہ اب ماحول 2023اور 24والا تو رہا نہیں جھوٹ کے وہ بیوپاری کہ جو گزشتہ دو سال سے کبھی ڈیفالٹ تو کبھی پاکستان پر پابندیوں کا واویلا کرتے رہے، آئے روز کپتان کی رہائی کی پیشین گوئیاں، بھارت کے مقابل پاکستان کے عسکری زوال کی باتیں ہوتی رہیں تو کبھی مقتدرہ کی جانب سے منت سماجت کا چورن پیچ کر ڈالرز کمائے اور کپتان کے ووٹرز سپورٹرز کو خوب گمراہ کیا جاتا رہا، اب کہاں ہیں کہ انکی ہر خواہش ایک ایک کر کے دم توڑ گئی۔کیا یہ عجب اتفاق نہیں کہ کپتان نے جس کی مخالفت کی، وہ اتنا ہی پروان چڑھا، وقار پایا اور عزت۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف مہم چلائی مگر وہ چیف جسٹس بنے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی روکوانے کےلئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی اور منظم مہم جوئی ہوئی۔ مگر تقدیر کا لکھا ہو کر رہا۔ صرف چیف ہی نہیں بلکہ فیلڈ مارشل کا اعزاز بھی پایا۔ شہباز شریف کے نام قرعہ نکلنے کا سہرا بھی میں کپتان کی دانش مندانہ سیاست کو ہی دیتا ہوں نہ کہ شہباز شریف کی صلاحیتوں کو، کہ فی الوقت اہلیت کا سوال نہیں۔ بتانا مقصود کہ کپتان نے جن جن کی مخالفت کی وہ اعزاز پاتے رہے۔ لگتا ہوں ہے کہ انکی جارحانہ سیاست کے قبول کا سورج اب غروب ہونے کو کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کی مخالفت رنگ دکھا سکی اور نہ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے پاکستان مخالف لابنگ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو کی گئی اپیلیں بھی اثر نہ دکھا سکیں بلکہ الٹا گزشتہ چھ ماہ کے دوران تاریخ کی ریکارڈ ترسیلات زر آئیں۔ اور نہ برطانیہ کے ممبران پارلیمنٹ کے خطوط سے کچھ حاصل ہو سکا۔ لگتا یوں ہے کہ کپتان اپنی طاقت، شہرت اور تعلق کے تمام پتے کھیل چکے اب شکست خوردہ کپتان ہر صبح جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقتدرہ کے پیامی کے منتظر، بار بار مذاکرات کے لیے انکے بیانات شکست خوردگی کا اعتراف ہی تو ہیں مگر باہر بیٹھے بعض پارٹی عہدے دار اور دن رات ڈالرز کمانے والے یوٹیوبرز ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان کا راگ الاپ کر انکی مستقل قید کا بھر پور سامان کر رہے ہیں کہ طاقتور کپتان نہ پارٹی والوں کے مفاد میں ہے اور نہ سیاس قیادت کے۔ بھارتی جارحیت کے بعد کے کٹھن ترین لمحات میں بھی قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے نے اگر پی ٹی آئی یا کپتان سے کسی قسم کی اخلاقی یا ابلاغی حمایت کی حاجت محسوس نہ کی تو پی ٹی آئی کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ باعزت ڈیل کا وقت گزر چکا اور اب انکے پاس 9 مئی واقعات پر معافی مانگنے اور غیر سنجیدہ و انتہا پسندانہ سیاست سے تائب ہونے کے سوا چارہ نہیں بصورت دیگر انہیں جیل میں رہ کر سیاسی بلوغت کے امتحان کی تیاری کرنا ہو گی کہ سیاست صرف آرزو مندی کا نام نہیں۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا، گیا دور گراں خوابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
کالم
تاریخ کے پلٹتے اوراق اور تازیانہ عبرت
- by web desk
- جون 3, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 96 Views
- 4 ہفتے ago