کالم

ترقی یافتہ ، جمہوری اور پرامن پاکستان

وطن عزیز کا انسداد دہشت گردی کا ادارہ نیکٹا معاشرے سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمہ کے لیے 2017 سے ہی قومی پالیسی پر عمل پیرا ہے ،مذکورہ پالیسی کا کلیدی مقصد ہمارے مدارس ہی نہیں بلکہ نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں ایسے نظام تعلیم کو فروغ دینا جو قیام امن کے حوالے سے اس کے دور رس اثرات کا حامل ہو، نیکٹا پالیسی خوبی یہ ہے کہ اس میں روس افغانستان جنگ ہی نہیں علاقائی و عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کی روشنی میں لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے،مذکورہ پالیسی میں اس بارے بھی اقدمات تجویز کیے گے ہیں کہ کیسے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرتے ہوئے انھیں باآسانی روزگار کے مواقع میسر آئیں، درحقیقت حکومت کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے وہ کیسےکئی دہائیوں سے پروان چڑھنے والے انتہاپسندی کو کم سے کم مدت میں ختم کیا جائے ، نیکٹا کے مطابق خبیر پختوانخواہ، بلوچستان اور ماضی کے فاٹا جیسے علاقوں میں روزگار کے مواقع کم ہیں چنانچہ ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ کیسے محدود سرکاری وسائل کے باوجود پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو علم کی روشنی سے روشنی کے ساتھ باعزت روزگار کی فراہم یقینی بنائی جائے ، زمہ دار اداروں میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں پالیساں تو فورا بنا دی جاتی ہیں مگر ان پر مکمل طور پر عمل درآمد کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ، دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جانی ومالی قربانیاں اپنی جگہ مگر اس سچائی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ وطن عزیز میں بدستور سیاسی ، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر امن وامان کی خرابی کا سلسلہ جاری ہے ،حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گرد کاروائی نے اس تلخ حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ ارض وطن پر قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنےکی ضرورت ہے ، بلوچستان سمیت خبیر پختوانخواہ میں جاری دہشت گردی کے خلاف سیکورٹی فورسز کے افسران واہلکار جس طرح جوانمردی سے امن دشمنوں کا مقابلہ کررہے ہیں وہ ہرلحاظ سے قابل تحسین ہے، ایک احساس یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ایسے کئی دہشت گردوں کو رہا کردیا گیا جو قتل سمیت سنگین نوعیت کے واقعات میں ملوث تھے ، تاحال سرکاری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گی لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو اس گھناونے جرم میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے ،سمجھ لینا چاہے کہ دنیا میں امن ہی تعمیر وترقی کا واحد راستہ ہے ، عصر حاضر کی کسی ریاست میں ایسا نہیں ہورہا کہ ایک طرف اس کے ہاں انواع واقسام کی دہشت گردی جاری وساری ہوں جبکہ دوسری جانب وہ مملکت تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہی ہو ،وقت آگیا ہے کہ ہماری مذہبی وسیاسی جماعتیں اگے بڑھ کر پوری قوت سے امن دشمنوں قوتوں کے خلاف سینے سپر ہوجائیں ،یقینا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں جہاں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لازوال قربانیاں دیں وہی اس دوران سیاسی رہنماوں اور کارکنوں نے بھی اپنی جان کا نذارنہ پیش کرنے میں کسی طورپر تامل کا مظاہرہ نہیں کیا ،اس کی نمایاں مثال محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت ہے تاریخ گواہ ہےکہ کس طرح تمام تر خطرات کو پس پشت ڈالتے ہوئے بی بی آخری وقت تک عوام میں موجود رہیں اور دہشت گردوں کا نشانہ بن گیں۔ پرامن ، خوشحال اور روداری سے بھرپور پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کےلے ہمیں اپنے اپنے دائروں سے نکلنا ہوگا، یہی ایک صورت ہے کہ ہم قومی سطح پر اتفاق واتحاد کو یقینی بناسکتے ہیں، بطور قوم اس پر یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت منتخب ہو یا نگران ہر ایک کی اولین ترجیح پاکستان میں امن اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے ، اس کی تازہ مثال نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی دی جاسکتی ہے کہ محدود مینڈیٹ ہونے کے باوجود وہ اور ان کی کابینہ کے دیگر اراکین ملکی مسائل حل کرنے کےلئے پوری جانفشانی سے کوشاں ہیں ، انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان ہے ، رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مسائل نگران وزیر اعظم کی نظروں سے کسی طور پر اوجھل نہیں، یہ بھی سچ ہے کہ بلوچستان سالوں سے نہیں کئی دہائیوں سے مذہبی ، لسانی اور سیاسی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارے بلوچ بہن بھائیوں کے وفاق سے گلے شکوے اپنی جگہ مگر بلوچستان کے عوام کی اکثریت پاکستان کو جمہوری ، پرامن او ترقی یافتہ دیکھنے کی خواہشمند ہے ، یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو دشمن کی ایما پر پاکستان میں امن وامان کی صورت حال خراب کرنے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث ہیں، بلاشبہ ایسے عناصر کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، چنانچہ وقت آگیا ہے کہ ہم ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر ملک میں حقیقی امن کے قیام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں پاکستان معاشرے میں مذہبی ، سیاسی اور سماجی سطح پر پایا جانے والے تنوع ہی اس کے حسن میں اضافہ کرتا ہے ، خبیر تا کراچی مختلف زبانوں، تہذیبوں اور مذاہب ہماری کمزوری نہیں طاقت ہیں، تفرقہ بازی ، لسانیت اور فرقہ واریت پھیلانے والے ہی پاکستان کے اصل دشمن ہیں جن کا آئین اور قانون کی روشنی میں قلع قمع باہمی اتفاق واتحاد سے ہی ممکن ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri