کالم

توشہ خانہ تخائف میںصرف کپتان مجرم نہیں؟

آج کل پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ماضی قریب کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے توشہ خانہ سے وصول کئے گئے 120 تخائف لینے کی بات ہو رہی ہے۔ مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دیگر سابق وزرائے اعظمان ، صدور ، مسلح افواج اور سول بیروکریٹس کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے ،جو انصاف کے تقاضوں اور وطن عزیز کے مسلمہ قوانین اور ہماری معاشرتی اقدار کے بالکل منافی ہے۔ اگر واقعی موجودہ حکومت عمران خان توشہ خانہ سے تخائف کی بات کرتے ہیں تو اُنکو پاکستان کے سابق صدور وزرائے اعظم ، مسلح افواج کے جنرلز اور سول بیروکریٹس کی بات بھی کرنی چاہئے۔اور یہی وجہ ہے کہ صرف عمران کو تارگٹ بناکر موجود ہ وزیر اعظم شہباز شریف انتہائی تنقید کا سامنا کر رہاہے۔ اب تک حاصل کئے گئے اور میڈیا کے رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے لئے گئے 120 تحفے 4 کروڑ روپے کے لئے۔ تجزیہ نگا روں کے مطابق مارکیٹ میں ان تخائف کی قیمت اربوں روپے ہے۔ عمران خان نے یہ تخائف کے 20 فی صدکے حساب سے لئے اور ساتھ ساتھ ان تخائف کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے اسکواندرون اور بیرون ملک بیچا۔ حالانکہ تخائف ہمیشہ وصول کر کے رکھے جاتے ہیں مگر اسکو بیچا نہیں جاتا۔اسکے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری نے لیبیا کے مرحوم صدر قذافی سے دو بی ایم ڈبلیو گا ڑی اور دو ٹویٹا جیپ 93 لاکھ کے لئے جو کروڑوں روپے کے تھے۔ علاوہ ازیں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے توشہ خانہ سے 1026 تخائف 26 ملین روپے کے خریدے ۔سابق ملٹری ڈیکٹیٹر اور دس سال تک ڈنڈے پررہنے والے صدر پر ویز مشرف نے اپنے 10 سالہ دار اقتدار میں 515 تخا ئف توشہ خانہ سے 3کروڑ 81 لاکھ روپے کے لئے۔ پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ کے سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے توشہ خانہ سے 304 تخائف 2 لاکھ 17 ہزار روپے کے خریدے۔ اسی طرح سابق بیروکریٹ اور صدر پاکستان غلام اسحق خان نے 88تخائف66 ہزار روپے کے لئے۔ سابق مطلق العنان اور 10 سال تک ملک پر اقتدار کرنے والے مرحوم ضیاءالحق نے توشہ خانہ سے 1022 تخائف خریدے۔مزید بر آں تین دفعہ رہنے والے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 127تخائف ایک کروڑ روپے کے خریدے۔ جب کے اس بر عکس ملٹری ڈیکٹیٹر صدر ایوب خان اور سابق کیر ٹیکر وزیر اعظم بلخ شیر مزاری نے توشہ خانہ سے کوئی تخائف وصول نہیں کئے۔دراصل تو شہ خانے میںتخائف عمران خان ، نواز شریف ، بے نظیر بھٹو ، پرویز مشرف ، شوکت عزیزاور دیگر وزرائے اعظمان اور صدور کو انکے ذاتی حیثیت میں نہیں دئے جاتے بلکہ تخائف ریاست کو دئے جاتے ہیں اور جو ریاست کی ملکیت ہوتی ہے۔ پاکستان کے ہر دور کے وزرائے اعظمان اور صدور نے قانون بنا یا ہے ۔اس قانون کے مطابق یہ تخائف اصل قیمت کے بجائے 15یا 20 فی صد پر وزرائے اعظم اور صدور کو دئے جاتے ہیں۔ضرورت تو اس امر ہے کہ یہ تخائف تو شہ خانو ں میں ایک تا ریخی ورثے کے طور پر رکھنے چاہئے اور کسی وزیر اعظم ، صدر یا جنرلز کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ یہ تخائف کوڑی کے دام تو شہ خانوں سے حا صل کرکے اپنے گھروں اور کھوٹیوں میں سجائیں یا اسکو بیچیں۔قانون ساز اداروں،قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانون سازی کرنی چاہئے کہ یہ تخائف کو کوئی بھی وزیر اعظم ،صدریا کوئی بیروکریٹس 15 یا 20 فی صد پر نہ لیں۔ بلکہ اسکو اسکی اصل قیمت پر لیناچاہئے ۔اس کالم کے ذریعے مقتدر اداروں سے درخواست ہے کہ وہ کسی بھی حکمران کوتوشہ خانہ سے ان تخائف کے خریدنے سے روکیں۔اور عمران خان کے توشہ خانے سے لئے گئے تخائف کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے تخائف کی بھی تحقیقا ت ہونی چاہئے۔کیونک حکومتی ریکارڈ کے مطابق صرف عمران خان مجرم نہیں بلکہ دوسرے بھی اس قسم کے جرم میں برابر شریک ہیں۔وطن عزیز اس وقت کافی مشکلات کا سامنا کررہا ہے اسکو مزید مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ کیونکہ ہم بین الاقوامی برادری میں سب سے پیچھے ہیں ۔ اور یہاں تک کہ ہم افغانستان ، بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔کسی بھی تہذیب یافتہ ملک میں سرکاری تخائف تو شہ خانوں میں رکھے جاتے جو ریاست کے ہوتے ہیں نہ کہ کسی انفرادی شخصیت کے ہوتے ہیں۔ یورپی اور دیگر ممالک کی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے