کالم

جدید افغانستان کی تلاش

پاکستان کے ہمسائے میں واقع مسلم ملک افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر قدغن اور بدترین صنفی امتیاز نے حکمران ملاں کی "افادیت اور ضرورت” کو ایک بار پھر ثابت کردیا ہے۔اگرچہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دھیمے سروں میں افغان خواتین کو جدید تعلیم کے حصول سے الگ کرنے کے فیصلے پر تنقید تو کر رہے ہیں ،لیکن اس تنقید کے دوران ان کے چہرے کی مسکراہٹ ثابت کرتی ہے کہ سب کچھ ان کی حقیقی منشا کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ملازمت کرنے والی خواتین کو بھی گھر پر رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔یہ سب کچھ مضحکہ خیز سا لگتا ہے، پر افغانستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ اعلی تعلیم کے وزیر مولوی ندا محمد ندیم کے مطابق حکومت نے یونیورسٹیوں میں خواتین کےلئے تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ اس فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ ایسا "شریعت ” کے نفاذ کی خاطر کیا گیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی یونیورسٹیوں نے حکومت کی تجاویز اور ہدایات پر عمل نہیں کیا ۔ان ہدایات کے مطابق یونیورسٹی طالبات یونیورسٹی ہاسٹل میں محرم کے بغیر نہیں رہ سکتیں ، وہ زراعت اور انجینئرنگ کے شعبے اختیار نہیں کر سکتیں، وہ مرد اساتذہ سے نہیں پڑھ سکتیں۔یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم پر سخت پابندی کو موثر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔تجویز دی گئی تھی کہ طلبہ اور طالبات الگ الگ دنوں میں یونیورسٹی آیا کریں۔ایک بڑا مسئلہ” شرعی پردے” کا بھی ہے۔یہ پابندیاں لگاتے اور وضاحتیں پیش کرتے ہوئے وزیر تعلیم کو ذرا اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کس قدر جاہلانہ باتیں کر رہے ہیں۔ایک مہذب معاشرہ خواتین کی تعلیم اور مساوی حقوق کے بغیر کیسے ترقی کر سکتا ہے۔افغانستان پر حکومت کرنے والے نادان افغانستان کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں ۔ افغانستان ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا ۔یہاں افغانستان کو ایک جدید ،فلاحی جمہوریہ بنانے کےلئے کئی بار کوشش کی گئی اور ہر بار دنیا میں جدت ، فلاح ،انسانی حقوق اور تعلیم کے علمبردار ممالک برطانیہ اور امریکہ نے کوشش کر کے اور افغانستان کو باقی دنیا سے کاٹ کر ، ازمنہ قدیم کے نیم تاریک ماحول میں مقید رکھنے کو یقینی بنایا ہے۔یہ ملک گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں جمہوریہ ترکیہ کے ماڈل پر جدید ریاست بننے کی کوشش کر رہا تھا ۔ افغانستان میں امیر امان اللہ خان ایک جدید جمہوری ریاست کی تشکیل میں مصروف تھے اور ان کی تعلیم یافتہ اہلیہ ملکہ ثریا طرازی ،جو وزیر تعلیم بھی تھیں ، افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ان کا بنیادی موقف اور کوشش یہ تھی کہ خواتین کو جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیئے، پردے کے روایتی اور غیر منطقی تصور سے جان چھڑانی چاہیئے اور یہ مردوں کو ایک سے زیادہ شادیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ اسی زمانے میں جمہوریہ ترکیہ کے اتاترک مصطفی کمال پاشا نے افغان طالبات کےلئے ترکیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لیے وظائف دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ذرا تصور کریں کہ پاکستان کے ہمسائے میں جمہوریہ ترکیہ جیسے جدید ،تعلیم یافتہ اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ افغانستان کا وجود کس قدر شاندار بات ہوتی۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ 1923 میں اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام پیام مشرق شائع ہوا۔یہ فارسی مجموعہ کئی اعتبار سے منفرد تھا۔ایک تو اس لیے کہ اقبال کے اس مجموعے کا محرک جرمن شاعر گوئٹے کا دیوان مغربی تھا، دوسرے اس فارسی مجموعہ کلام کا دیباچہ اردو زبان میں لکھا گیا تھا،جس میں اقبال نے جرمن ادب پر فارسی شاعری کے اثر ونفوذ کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا اور تیسرے یہ کہ اس مجموعے کا انتساب ہمسایہ ملک افغانستان کے امیر امان اللہ خان کے نام کیا گیا تھا۔یہ عصری معنویت اور نظری و عملی اہمیت کے اعتبار سے بڑا معنی خیز انتساب تھا۔ہندوستان کے کج فہم نکتہ چینوں نے اس انتساب کو اقبال کا عیب شمار کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ دوسروں کو خودی کا درس دینے والا اپنی کتاب کا انتساب ایک بادشاہ کے نام کر رہا ہے۔اقبال پیام مشرق کے دیباچے میں اس انتساب کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کےان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے ۔اسی بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرمانروائے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے ،کہ وہ اپنی فطرت، ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طور پر مدنظر ہے ۔اس عظیم الشان کام میں خدا تعالی ان کا حامی و ناصر ہو ۔ ” امر واقعہ یہ تھا کہ غلام ہندوستان کا ذہنی اور شعوری طور پر آزاد شاعر اپنے مجموعہ کلام کو ایک ایسے مسلم ہمسایہ ملک کے فرمانروا کے نام انتساب کر رہا تھا جس نے اپنے ملک کو برطانوی سلطنت کے طویل تسلط سے جنگ جیت کر آزاد کرایا تھا اور 1919سے امیر امان اللہ خان کا افغانستان ایک مکمل طور پر آزاد و خودمختار ملک کے طور پر دنیا کے سامنے تھا۔برسراقتدار آنے اور انگریزوں کے سیاسی اور عسکری تسلط سے مکمل آزادی حاصل کر لینے کے چند برس بعد فرمانروائے افغانستان امیر امان اللہ خان نے اپنا لقب امیر سے بدل کر بادشاہ کر لیا اور اس طرح وہ افغانستان کے شاہ بن گئے، قبائل میں منقسم ملک میں ایسا کرنا قومی یک جہتی اور مضبوط مرکزیت کےلئے ضروری بھی تھا۔امان اللہ خان جانتا تھا کہ ایک ناخواندہ قبائلی ملک کو جمہوری بنانے کےلئے تعلیم اور خصوصی طور پر خواتین کو تعلیم یافتہ بنانا شرط اول ہے۔ امان اللہ خان 1929 تک برسر اقتدار رہے۔ اس دوران وہ اور ان کی جدید تعلیم یافتہ ملکہ ثریا طرازی افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کےلئے کوشاں رہے۔ 1926میں امان اللہ خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ میں عوام کا بادشاہ ہو سکتا ہوں لیکن وزیر تعلیم میری بیوی ہیں۔ان کے اس بیان نے افغانستان میں ملکہ ثریا کے کردار کو واضح کر دیا تھا۔ وزیر تعلیم ملکہ ثریا طرازی نے لڑکیوں کی تعلیم کےلئے ایک اسکول قائم کیا اور نمونے اور مثال کے طور پر اپنی دو بیٹیوں کو اس اسکول میں پڑھنے کےلئے بھیجا ،تاکہ دیگر لوگوں کی جھجک ختم ہو اور وہ بھی ایسا ہی کریں۔ا فغانستان کے حوالے سے امیر امان اللہ خان نے ایک اور انقلابی قدم اٹھایا اور ملک میں کثرت ازواج اور برقعے کے خلاف ایک عوامی مہم کا آغازکیا ۔انہوں نے ملک کے اہم شہروں میں بچیوں کی تعلیم اور پردے کے مبالغہ آمیز تصور کیخلاف لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔اسی طرح کی ایک مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے امیر امان اللہ خان نے کہا تھا کہ اسلام کسی مخصوص طرز کے برقعے یا پردے کا حکم نہیں دیتا۔امیر امان اللہ خان کی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ وہیں موجود ملکہ ثریا طرازی نے اپنا نقاب اتار کر ایک طرف رکھ دیا ،ان کی تائید میں وہاں موجود دیگر خواتین نے بھی ایسا ہی کیا۔ ملکہ ثریا کی شامی نژاد والدہ محترمہ اسما راسمیہ طرازی نے مملکت افغانستان میں خواتین کے پہلے رسالے کا اجرا کیا ، اس رسالے میں افغان خواتین کو بیدار اور متاثر کرنے کے لیے دنیا اور خصوصا مسلم ممالک کی کامیاب خواتین اور معاشرے میں نمایاں مقام کی حامل خواتین کے متعلق معلوماتی مضامین شائع کیے جاتے تھے۔اس اولین رسالے کا نام "ارشادِ نسواں” تھا.ملکہ ثریا کی والدہ کو بیداری خواتین کے اس کام میں اپنی دختر کا مکمل تعاون حاصل تھا ۔خواتین کے اس رسالے کے اجرا اور مسلسل اشاعت نے اس طرح کے دیگر رسائل و جرائد کےلئے راہ ہموار کی ۔ امیر امان اللہ خان افغانستان کو جمہوریہ ترکیہ کی طرز پر ایک جدید تعلیم یافتہ جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے ۔مصطفی کمال اتاترک کے ساتھ ذاتی مراسم تھے اور تقریبا انہی خطوط پر جمہوریہ افغانستان کی تعمیر و تشکیل کرنا چاہتے تھے ،جن خطوط پر مصطفی کمال اتاترک اپنے ملک کی تعمیر و تشکیل کر رہے تھے۔مصطفی کمال اتاترک نے امیر امان اللہ خان کو افغانستان کے مخصوص پس منظر کے حوالے سے مشورہ دیا تھا کہ انہیں اصلاحات کے نفاذ کرتے ہوئے بے لچک رویہ اختیار کرنا ہوگا ،یہاں تک کہ قوت کا استعمال بھی۔انہوں نے اپنے ملک کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریہ ترکیہ میں بھی اصلاحات کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا گیا تھا ، ہم نے اصلاحات کو پوری قوت سے رائج کیا ہے۔مصطفی کمال نے امیر امان اللہ خان کو بتایا تھا کہ کسی بھی ملک کے لوگ اپنے پرانےخیالات ، عقائد اور رسوم و رواج کی پابندیوں کو آسانی سے خیرباد نہیں کہا کرتے ،حکومت وقت کو چاہیئے کہ جہاں ضرورت ہو، اصلاحات کے نفاذ کےلئے ریاستی طاقت کو استعمال میں لائے ۔ امیر امان اللہ خان اس راز کو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ کوئی معاشرہ خواتین کی تعلیم اور مساوی معاشرتی رتبے کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ۔ بیسویں صدی کی دوسری دھائی میں افغانستان کے حکمران کا یہ عزم کس قدر نتیجہ خیز ہو سکتا تھا ، اگر برطانیہ افغانستان کو وہاں کے ناخواندہ قبائلی سرداروں اور قدامت کی تاریکی میں ڈوبے ملاں کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرنے پر کمربستہ نہ رہتا۔امیر امان اللہ خان کے ہاتھوں اپنی عبرت ناک فوجی شکست اور سیاسی ہزیمت کے بعد برطانیہ کی حکمت عملی یہ رہی کہ روس اور ہندوستان کے درمیان واقع افغانستان ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال ملک نہ بننے پائے۔آج امریکہ بھی برطانیہ کی وضع کردہ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔بیس سال تک دنیا بھر کی فوجوں کے ساتھ اور اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے وہ افغانستان کو ایک جدید تعلیم یافتہ ملک بنانے کی بجائے قدامت پرست ملاں کے حوالے کر کے گیا ہے کہ مستقبل کی جنگوں کےلئے ، چاہے وہ چین کے ساتھ ہوں ،چاہے روس کے ساتھ ،اسے ناخواندہ اور مذہب کے قدیم اور ضعیف تصورات پر عامل افغانستان ہی درکار اور پسند ہے۔ویسے کبھی کوئی امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم سے سوال تو کرے کہ انہیں آخر کیوں ایک تاریکی اور جہالت میں ڈوبا ہوا افغانستان ہی پسند ہے؟ کیا انسانی حقوق کا اطلاق افغانستان پر نہیں ہوتا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri