کالم

جرا¿تمند اور صاحب بصیرت، قاضی حسین احمد

قاضی حسین احمدپاکستان میں اور دنیائے اسلام میں اسلامی انقلاب کے عملی داعی تھے اور پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی ان کی خواہش جنون کی سرحدوں کو چھوتی نظر آتی تھی۔ پاکستان کی سطح پر2002ءمیں قاضی حسین احمد کی کوششوں کے نتیجے میں دینی جماعتوں کا ایک اتحاد قائم ہواجسے "متحدہ مجلس عمل” کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد نے انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی لیکن جنرل پرویز مشرف کااس اتحاد کو توڑنے میں اہم رول رہا۔ مشرف کی حمایت کے حوالے سے اس اتحاد میں دراڑیں پڑگئیں اور یہ قائم نہ رہ سکا۔ اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی طالبات کی شہادت اور لال مسجد میں آپریشن کے بعد قاضی حسین احمد اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہیے تھے لیکن ایم ایم اے میں اتفاق نہ ہوسکا جس کے باعث قاضی حسین احمد ذاتی حیثیت میں اسمبلی سے مستعفی ہوگئے۔قاضی حسین احمد کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پاکستان کو اس کی حقیقت منزل تک پہنچانے اورنفاذ اسلام کی جدوجہد میں گزرا۔ پیرانہ سالی اور صحت کی خرابی کے باوجود وہ اس مشن پر گامزن رہے۔ قاضی حسین احمد کی شخصیت پوری اسلامی دنیا میں امت کے رہنما اور قائد کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھی۔ قاضی حسین احمد کی شخصیت ملک و ملت کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھی وہ پارٹی اور مسلکی تعصبات سے پاک اور ہر ایک کے لیے محبت و عقیدت کا مرکز تھے۔ انہوں نے دینی جماعتوں کو متحد کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف طبقہ ہائے فکر کے درمیان مسلکی و گروہی اختلافات کو ختم کر کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیداکرنے کی کوششیں آخری دم تک جاری رکھیں۔اسلامی جمہوریت کے حامی قاضی حسین احمد 1938ء میں نوشہرہ کے نواح میں واقع زیارت کاکا نامی گاو¿ں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب سے حاصل کی پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرار تین برس تک پڑھاتے رہے ۔ اس کے بعد ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا اور سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد قاضی حسین 1970 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور 1978 میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور1987 میں جماعت اسلامی پاکستان امیر منتخب کر لیے گئے اور چار مرتبہ امیرمنتخب ہوئے۔ قاضی حسین احمد 22 سال تک بھرپور انداز میں جماعت اسلامی کی امارت کے فرائض انجام دیتے رہے اور بھرا ہوا میلہ چھوڑ کر عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنی موجودگی میں سید منور حسن کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب کرایا۔ سابق امیر جماعت اسلامی نے اپنے ہی سیکرٹری جنرل سید منور حسن کے امیر جماعت منتخب ہونے پر ڈسپلن کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔قاضی حسین احمدمرحوم شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے بہت بڑے مداح تھے۔ فارسی زبان میں کلام اقبالؒ قاضی صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا۔انہیں فارسی و اردو میں ان کااکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے ۔ خاص طور پر فارسی کلام پر تو انھیں ایسی دسترس حاصل تھی کہ اپنے خطاب اور تقریر میں اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا کہ حکیم الامت ؒ نے یہ شعر دراصل کہا ہی اس موقع کے لیے تھا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے قاضی حسین احمد کا کردار قابل رشک تھا۔ روس کے خلاف انہوں نے افغان جہاد میں نہایت اہم کردار ادا کیا اوراس دوران تمام جہادی یونٹوں سے ان کے روابط قائم رہے۔ قاضی حسین احمد نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین اور علماءو مفکرین کوساتھ ملا کر اختلافات کو پاٹنے کی مسلسل کوششیں کیں۔ لیکن بدقسمتی سے صلح کا ہرمعاہدہ بیرونی سازشوں اور اندرونی بے اعتمادی کی نذر ہوگیا۔قاضی حسین احمد مرحوم نے اتحاد و وحدت کی یہی کاوشیں کشمیر میں بھی جاری رکھیں۔ ان کی کوششوں سے کشمیر میںمجاہدین کے درمیان پھیلائی جانے والی کئی غلط فہمیاں اور اختلافات پربروقت قابو پایاگیا۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر مملکت جنرل عمر حسن البشیر کے درمیان اختلافات علیحدگی کی صورت اختیار کرنے لگے تو فریقین نے قاضی صاحب کو حکم تسلیم کیا۔ ایک بار صلح کا معاہدہ عمل میں بھی آگیا لیکن عالمی و علاقائی سازشوں کی نذر ہوگیا۔ اس کے باوجود قاضی صاحب کے مسلسل رابطے کے باعث اختلافات کو تصادم میںبدلنے کی کئی سازشیں ناکام ہوئیں۔عراق کویت جنگ ہو یا مسئلہ کشمیر ، فلسطین، بوسنیا اور کوسوو میں مسلم کشی ہویا چیچنیا میں قتل عام، برما کے خون آشام حالات ہوں یا اریٹیریا کے غریب عوام کے مصائب، قاضی حسین احمد نے پورے عالم میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیشہ امت کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش۔ وحدت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سربلندی کے حوالے سے لائق تحسین کاوشیں ہمیشہ یادرکھیں جائیں گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار اور خلفشار کامعاملہ ہویاکسی دوسرے مسلمان ملک کی دشوارگزارصورت حال، دونوں حوالوں سے قاضی حسین احمد غم خوار اور درددل رکھنے والے کی حیثیت سے ہمیشہ سامنے آتے رہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر خوفناک صورتحال کے خاتمے اور مختلف مکاتب فکر کے مابین وحدت و ہم آہنگی قائم کرنے کےلئے قاضی حسین احمد گرانقدر خدمات رہیں۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر خوفناک صورتحال کے خاتمے اور مختلف مکاتب فکر کے مابین وحدت و ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے قاضی حسین احمد کی گرانقدر خدمات تھیں۔قاضی صاحب کی سربراہی میں ایسی کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا جو جمعہ کے خطبوں کےلئے مشترکہ نکات طے کرنے کے ساتھ ساتھ خطیبوں کی راہنمائی کر سکے۔ قاضی حسین احمد سمجھتے تھے کہ ایسی کوششیں جب مسلسل جاری رہیں گی تو پاکستان میں تفرقہ ڈالنے والی قوتیں کمزور ہوتی ہیں اور کشیدگیاں بھی کم ہوتی۔ قاضی حسین احمد فرقہ وارانہ بنیادوں کے علاوہ نسلی اور لسانی بنیادوں پرہونے والے تشدد کے سخت مخالف تھے۔ ان کی کوشش رہی کہ تمام اسلامی قوتوں اور مسلمانوں کو ان بنیادوں پر اکٹھا کرنا ضروری ہے جو ان میں مشترک ہیں ۔ بلاشبہ قاضی حسین احمد کا انتقال جماعت اسلامی اور ان کے خاندان والوں کےلئے ہی غم اور صدمے کا باعث نہیں بنا بلکہ پوری قوم اور ملت اسلامیہ نے اس غم اور صدمے کو محسوس کیاہے۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri