کالم

دیہات اور شہر کے بڑھتے مسائل

پاکستان میں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کی رفتار اور رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے نقل مکانی کا یہ رجحان نہ صرف شہروں کے مسال میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آبادی میں اضافہ کے سبب شہروں میں جرام کی رفتار خصوصا سٹریٹ کرامز میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے شہری آبادی میں اضافہ سے پیدا ہونے والے مسال کا جازہ لینے سے پہلے ہم شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں اضافہ کے اسباب کا جازہ لیتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ شہروں کے مقابلے میں دیہات میں سہولیات کا شدید فقدان نظر آتا ہے اگر تعلیم کے میدان میں دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کے اس انتہای ترقی یافتہ دور میں آپ کو بعض دیہات پرامری سکولوں کے وجود سے بھی خالی نظر آیں گے اکثر دیہاتی سکولوں میں سنگل ٹیچرز ملیں گے جو چھ کلاسز کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ ڈینگی ایکٹیوٹیز کرتے، تصاویر بنا کر محکمے کو ارسال کرتے، سکولوں میں جھاڑو لگاتے، واش رومز تک صاف کرتے نظر آیں گے اگر کسی سکول میں دو یا تین ٹیچرز ہوں گے تو ایک کے علاوہ باقی ٹیچرز مردم شماری کرتے، امتحانی ڈیوٹیاں دیتے، یا اسی طرح کے دیگر امور سرانجام دیتے ملیں گے ایسے میں معیارِ تعلیم کا بری طرح گرنا غیر متوقع اور غیر معمولی بات نہیں ہے ہمارے ہاں خوش قسمتی سے پرامری پاس کر جانے والے طلبہ کو ساتھ کے کسی بڑے گاں یا قصبے کا رخ کرنا پڑتا ہے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر روزانہ کا سفر انہیں شدید متاثر کرتا ہے ہای سکول اور اس سے آگے کی تعلیم اگر حاصل کرنی ہے تو شہروں کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اور اکثر دیہاتی خاندان بچوں کی تعلیم کی خاطر شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں گھر کے دیگر افراد وہیں پر روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں دیہات میں صحت کا مسلہ بڑا گمبھیر ہے۔ 1985میں محمد خان جونیجو وزیراعظم پاکستان تھے تو انہوں نے پانچ نکاتی پروگرام کے تحت دیہات میں صحت، تعلیم اور مواصلات کی طرف بھرپور توجہ دی اور موثر اقدام کیے تھے ان کے بعد دیہات میں معکوس ترقی کا ایسا عمل شروع ہوا کہ آنےوالی ہر حکومت نے دیہات کو نظرانداز کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا دیہات میں صحت کی سہولیات بہت حد تک ناپید ہیں گاں کا پرائیویٹ ڈاکٹر اکثر ایسا نوجوان ہوتا ہے جو میٹرک میں فیل ہونے کے بعد شہر یا قصبے کے کسی کلینک یا میڈیکل سٹور پر چند ہفتے کام کر کے کوالیفاڈ ڈاکٹر ہونے کا درجہ پاتا ہے دیہات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مریض کو شہر منتقل کرتے ہوئے راستے میں ہی اس کی جان چلی جاتی ہے اس وجہ سے بھی اکثر لوگ شہروں کو نقل مکانی کر جاتے ہیں دیہات میں ذراع آمدورفت کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے دور دراز کے رہنے والے عزیز و اقارب ان کے ہاں آنے میں تامل کرتے ہیں جبکہ ذراع آمدورفت کی اس خرابی کی وجہ سے دیہات میں رہنے والوں کے بچوں کی شادی کے لے بھی معقول رشتے مل نہیں پاتے جو دیہات سے شہروں کی طرف منتقلی کا سبب بنتے ہیں دیہات میں روزگار کے مواقع انتہای محدود اور اجرت بھی بہت کم ہوتی ہے جو لوگوں کی شہروں کی جانب منتقلی کا باعث بنتی ہے ایک اور سبب دیہات میں بگڑے ریس زادے اور امیرزادے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں لوگوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہوتیں اور وہ اپنی غربت کے باعث تھانہ کچہری سے انصاف نہیں لے پاتے جس کی وجہ سے وہ شہروں کو نقل مکانی کر جاتے ہیں ۔ شہروں کی جانب نقل مکانی سے شہری زندگی پر بہت دبا پڑا ہے شہروں میں جتنی بھی تیز رفتاری سے سہولیات دی جایں وہ بڑھتی آبادی کا مقابلہ نہیں کر پاتیں ہسپتالوں پر بڑھتی آبادی نے اس قدر اثر ڈالا ہے کہ ایک بیڈ پر تین تین مریض پڑے نظر آتے ہیں مگر پھر بھی مریضوں کی کثیر تعداد داخلے سے محروم رہ جاتی ہے ایمرجنسی آپریشن کی باری آنے میں بھی کی ہفتے لگ جاتے ہیں طلبہ کی کثیر تعداد کی وجہ سے بڑے کالجز اور یونیورسٹیوں کے داخلے کا میرٹ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد داخلوں سے محروم ہو کر پرایویٹ اداروں میں مہنگی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا دباﺅ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے رش کے اوقات میں دس منٹ کا سفر آدھے سے ایک گھنٹے میں طے ہو پاتا ہے ٹریفک میں بے ہنگم اضافے کے سبب روڈ ایکسیڈنٹ بھی زیادہ ہونے لگے ہیں شہروں میں آبادی میں اضافہ نے چوریوں اور ڈاکوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرامز میں بھی خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ دیہات میں گھر کشادہ ہوتے ہیں۔ فی کنال چار یا پانچ لوگ رہتے ہیں بڑے شہر میں فی مرلہ رہنے والوں کی اوسط تعداد دس ہے جو صحت کے مسال پیدا کر رہی ہے دیہات کی کھلی اور تازہ ہوا کے مقابلے میں شہری دھویں اور زہریلی گیسوں سے آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں دیہات سے شہروں کی طرف لوگ سہولیات کی وجہ سے نقل مکانی کرتے ہیں مگر بہت سے مسال کا شکار ہو جاتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس خطرناک رجحان کو روکنے کے عملی اقدام کرے دیہات میں تعلیم، صحت اورآمدورفت کی سہولیات کو بہتر کرے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرے کسی بھی نی انڈسٹری کو شہروں کے قریب لگانے کی اجازت نہ دے دیہات اور قصبات میں تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے قام کرے جہاں سے ہنر سیکھ کر نوجوان برسرِ روزگار ہو سکیں لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال کو بہتر کیا جاے ورنہ شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان شہری زندگی کو مزید خطرناک بنا دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے