غزہ مےں قےامت برپا ہے ۔قےامت کا ےہ منظر لمحہ بہ لمحہ ہولناک ہوتا جا رہا ہے ۔معصوم بچوں ،عورتوں اور مردوں کے ہر طرف کرب و اذےت کے لرزا دےنے والے مناظر ہےں ۔61ھ کو سانحہ کربلا کے بعد چشم فلک اےک اور اذےت ناک منظر دےکھ رہا ہے ۔بچے ےتےم ہو رہے ہےں ،ماﺅں کی گودےں اجڑ رہی ہےں ،ہر طرف بے گناہوں کے لاشے پڑے ہےں ،سےنکڑوں ملبے تلے دبے لاشے الگ داستان ظلم سنا رہے ہےں ۔درےائے فرات کا پانی اےک بار پھر آنسوﺅں کی زد مےں ہے ،غزہ مےں ہر طرف موت کا رقص ہے ۔گزشتہ اےک ماہ سے زائد جاری جنگ کے دوران ہسپتالوں ،مساجد ،سکول ،حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے پناہ گزےن کےمپوں تک کو نہےں بخشا گےا ۔مردوں کی تدفےن کےلئے قبرستانوں مےں جگہ کم پڑنے لگی ہے ،قبرستانوں پر بھی بم گرائے جا رہے ہےں ۔اب تک اسرائےل کے حملہ مےں 11ہزار سے زائد فلسطےنی شہےد اور زخمےوں کی تعداد 27ہزار سے بڑھ چکی ہے ،جس مےں آدھے بچے شامل ہےں ۔اتنی تعداد مےں بچوں کی شہادت انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر اےک طمانچہ ہے ،اےک ہزار سے زائد بچے ملبے تلے دبے پڑے ہےں ۔اقوام متحدہ کے ادارے ےونےسف کی اےک رپورٹ کے مطابق غزہ مےں ہر دس منٹ مےں اےک بچہ شہےد ہو رہا ہے ۔ےومےہ جاں بحق ےا زخمی ہونے والوں کی تعداد 4سو سے زےادہ ہے ۔بے ہوشی کے بغےر آپرےشن کے عذاب سے گزرنے والوں کی چےخ و پکار فضا کو مزےد کربناک بنا رہی ہے ۔اقوام متحدہ کے 35نمائندے اسرائےلی بمباری کی نذر ہو چکے ہےں ۔اپنے فرائض کی ادائےگی مےں مصروف عمل 36صحافی جان کی بازی ہار چکے ہےں ۔غزہ پٹی مےں 14لاکھ سے زائد لوگوں کو اسرائےل نے بے گھر کر دےا ہے ۔واپس جانے ےا سر چھپانے کےلئے اب کوئی چھت ان کے سر پر نہےں بچی ہے ۔عالمی ادارہ ڈبلےو اےچ او کی رپورٹ کے مطابق فلسطےن مےں اس وقت 50ہزار سے زےادہ حاملہ خواتےن موجود ہےں جن کو طبی سہولےات ،ڈاکٹرز مےسر نہ ہےں ۔غزہ مےں دو لاکھ انسانوں کو تباہی کا سامنا ہے ۔امرےکہ اور ےورپ کے بھرپور تعاون سے اسرائےل غزہ پر آسمان سے بموں کی بارش کر رہا ہے ۔ہزاروں بچوں اور خواتےن کے جسموں کے چےتھڑے اڑا دئےے گئے ہےں ،ہزاروں کو زندہ درگور کر دےا گےا ہے ۔آبادےوں کی آبادےاں قبرستانوں مےں تبدےل ہو گئی ہےں ،گھر بچے ،نہ ہسپتال نہ سکول ،کہےں جائے اماں نہےں ۔اسرائےل نے کھانے پےنے کی اشےاء،بجلی اور دوائےوں کی فراہمی کےلئے آمدورفت پر پابندی لگا کر ےو اےن اوکے انسانی حقوق کے چارٹر اور انسانےت کے سارے پےمانوں کا جنازہ نکال دےا ہے ۔اسرائےل کی بربرےت اب ان انتہاﺅں کو چھو رہی ہے کہ وہ اب انتہائی خطرناک اور خوفناک کےمےکل غزہ پٹی مےں استعمال کر رہا ہے ۔اےک اسرائےلی وزےر (AmichaiEliyalu)نے تو غزہ پر اےٹم بم مارنے کی تجوےز بھی دیدی ہے ۔اس پر پوری دنےا مےں سخت رد عمل آنے پرجواباً اسرائےلی وزےر نے کہا کہ مےں نے تو ےہ بات استعارتاً کہی تھی ۔کوئی ہمدرد نہےں جو ان خون کی ندےاں بہانے والوں کی آنکھوں مےں آنکھےں ڈال کر بات کر سکے ،کوئی ہاتھ نہےں جو بڑھ کر ظالموں کا ہاتھ روکے ،ماسوائے زبانی غم گساری کے ،ےہ غم گساری بھی صرف عوام تک ہے ،حکمران سوئے ہوئے ہےں ۔ان حملوں کے وےڈ ےو کلپ ،نظر سے گزرتے ہےں جو مکمل نہےں دےکھے جا سکتے ۔ان کو دےکھ کر بہزاد لکھنوی ےاد آتے ہےں ۔
اس دور مےں اے دوست زبوں حالی مسلم
دےکھی نہےں جاتی ،مگر دےکھ رہا ہوں
عالم اسلام کا کوئی ملک غزہ کے محصور و مظلوم فلسطےنےوں کی مدد کو نہےں پہنچ رہا ۔وہ مسلمان ممالک جو اب تک اسرائےل کو تسلےم کر کے اس سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کر چکے ہےں ،وہ بھی مہر بلب ہےںجبکہ امرےکہ اور مغربی ممالک اسرائےل کے شانہ بشانہ کھڑے ہےں ۔اگرچہ 27اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ مےں جنگ بندی کےلئے پےش کی گئی قرارداد 120ممالک کی حماےت سے پاس کر دی ہے ،نہےں معلوم کہ اس پر عمل کب ہو گا؟ امرےکی صدر جو بائےڈن کے واشگاف الفاظ مےں اسرائےل کی حماےت کے اعلان پر پچپن مسلمان ملکوں کو چاہےے تھا کہ اپنے اپنے سفےر واشنگٹن ڈی سی سے واپس بلا لےتے اور امرےکی سفےروں کو رخصت کر دےتے مگر ےہ ناممکن تھا کےونکہ ےہ پچپن مسلمان ملک راکھ کے ڈھےر کے سوا کچھ نہےں ۔ان کی اپنی سوچ کوئی نہےں ،منصوبہ بندی نہےں ،ےہ اےک بھےڑوں کا رےوڑ ہے جسے بڑی طاقتےں ہانک رہی ہےں ۔ہمارے مسلم امہ کے حکمران صرف بےان بازی مےں ہی عافےت ڈھونڈ رہے ہےں ۔ہماری مثال تو اس شعر کے مصداق ہے۔
دوڑنے والوں نے کےوں مد مقابل جانا
ہم تو بچوں کی طرح صحن کے اندر دوڑے
ےہ امرےکہ کے سامنے کےا کھڑے ہوں گے جن کے ہوائی اڈوں سے امرےکی طےارے اڑان بھر کر عراق اور افغانستان پر بمباری کرتے تھے ۔فلسطےنےوں کو وہ برےگےڈئےر اب بھی ےاداشتوں مےں ےقےنی محفوظ ہو گا جس نے اردن مےں رہ کر سےنکڑوں فلسطےنےوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا اور اسی اجر کا صلہ آج کی سپر پاور نے اسے جنرل بنوا کر دےا ۔مسلمان ممالک جنہےں ہم نہاےت فخر سے امت مسلمہ کا نام دےتے ہےں اس مےں ستاون ممالک شامل ہےں ۔اس کی آبادی دو ارب کے قرےب ہے ۔او آئی سی مسلم ممالک کی نمائندہ تنظےم کو قائم ہوئے 54سال ہو چکے ہےں اور ماسوا مذمتی بےانات کے اس کے پاس اور کچھ نہےں ۔او آئی سی کو بھی راکھ کا ڈھےر سمجھےں کےونکہ اس کی اپنی مجبورےاں ہےں ۔معزز قارئےن اس کڑے وقت مےں مسلم امہ کو سوچنا ہو گا ۔ےہ امتحان کا وقت ہے ،بے عملی نہےں عمل کی ضرورت ہے ۔بغےر عمل کے معجزوں کی توقع رکھنا فضول ہے کےونکہ کر سکتی ہے بے معرکہ جےنے کی تلافی ،اے شےخ حرم تےری مناجات سحر کےا ۔اب انہےں مستقبل کےلئے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کر کے اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت کا احساس کرنا ہو گا ۔
راہ جےنے کی اختےار کرو
توڑ کر تارےک راتوں کے حصار
کسی بھی اسلامی رےاست کا اولےن مقصد مسلمانوں کا اشتراک و اتحاد ہے لےکن ہمارا معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔جب قوموں مےں اجتماعی تحفظ کا جذبہ پےدا ہو جائے تو بڑے سے بڑے دشمن کا مقابلہ کےا جا سکتا ہے ۔مےرے معزز و محترم قارئےن کہتے ہےں کہ جب سےمرغ کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کے آخری دن قرےب آ گئے ہےں تو وہ اپنے گرد تنکے جمع کر لےتا ہے اور اس آشےاں مےں بےٹھ کر دےپک راگ الاپتا ہے جس سے اس کے پروں سے شعلے نکلتے ہےں ان سے اس کا آشےانہ بھی جل جاتا ہے اور وہ خود بھی راکھ کا ڈھےر بن کر رہ جاتا ہے ۔اس کے بعد اس راکھ پر بارش کا چھےنٹا پڑتا ہے تو اس مےں سے اےک نےا سےمرغ پےدا ہوتا ہے ۔سےمرغ کے متعلق تو ہمےں اتنی جانکاری نہےں لےکن جن قوموں مےں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی ہوتی ہے ان کی خاکستر سے دبی ہوئی چنگاری ابھرتی ہے اور اس سے اےک نےا انسان پےدا ہوتا ہے ،حوادث زمانہ راکھ کا ڈھےر ہی کےوں نہ بنا دےں ۔اس راکھ سے پےدا ہونے والے انسان قوم کو حےات نو عطا کرتے ہےں ۔اس کڑے اور امتحانی وقت مےں ہمےں ضرورت ہے اےسے انسانوں کی ،اےسے نوجوانوں کی ،اےسے حکمرانوں کی ،اےسے دانشوروں کی ،اےسے مجاہدوں کی اور اےسے سائنس دانوں کی جو مسلم قوم کے عروق مردہ مےں از سر نو جان ڈال سکےں اور اس بے بس قوم کے منجمد خون مےں حےات تازہ پےدا کر کے اسے حےات نو دے سکےں۔غزہ کی صورتحال پر عرب لےگ اور اسلامی تعاون تنظےم کا مشترکہ غےر معمولی سربراہی اجلاس اسرائےلی جارحےت پر مسلم ممالک کا مشترکہ موقف واضع کرنے کےلئے منعقد کےا گےا جس مےں کھل کر اسرائےل کیخلاف اظہار مذمت کےا گےا ۔ جہاں تک اظہار مذمت کی بات ہے اس مےں تو مسلم ممالک کا کوئی اختصاص بھی نہےں ۔اقوام متحدہ ، حقوق انسانی کے ادارے اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ تو پہلے ہی ےہ کر رہے ہےں مگر غزہ بدستور اسرائےلی جارحےت کے نشانے پر ہے ۔