کالم

رونا تو بنتا ہے

آجکل الیکشن کا زور شور ہے کاغذات جمع ہو رہے ہیں انتخابات میں حصہ لینے والا اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے متعلقہ دفتر جاتا ہے تو اس کے ساتھ کافی تعداد میں اس کے سپورٹر ہوتے ہیں جب وہ شخص کاغذات جمع کروا رہا ہوتا ہے تو کچھ لوگ خواہ مخواہ اپنے ہاتھ پھیلا پھیلااس کے کاغذات جمع کروانے پر اس طرح پوز کر رہے ہوتے ہیں جیسے وہ انتخاب لڑنے والے کے بہت بڑے بہی خواہ ہوں اور تصویر میں اس کیفیت کا اظہار نظر آئے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔ ہمارے معاشرے میں ان چمچوں نے گند ڈالا ہوا ہے یہ اس طرح حالات کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ دن کو رات اور رات کو دن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے ۔ انتخاب میں جب کامیابی ہو جائے تو پھر جائز اور ناجائز کاموں کی بھرمار ہوتی ہے ایم این اے اور ایم پی اے کو ان سے جان چھڑوانا مشکل ہو جاتی ہے ۔ ملازمتیں دلوانے کا جھانسہ دے کر لوگوں سے مال اکٹھا کرتے ہیں کام چاہے ہو یا نہ ہو یہ الگ بات ہے۔ کرپشن کا موج میلا لگا رہتا ہے سیاسی لوگوں کو بھی جھولی چک ٹائپ کے بندے چاہیئں ہوتے ہیں جو ہر وقت ان کے پاس جھمگٹا لگائے رکھیں ان کی انا کو تسکین پہنچتی ہے گردن میں مزید اکڑ آتی ہے کہ اس کی تعریف کرنے والوں کی کافی تعداد موجود ہے یعنی کہ وہ عوام میں ایک مقبول شخصیت ہیں۔ سیاسی لوگ ظاہراً کوئی کام دھندہ کرتے نظر نہیں آتے زمیندار ہیں تو ان کے کارندے ہوتے ہیں جو وائی بیجی کرتے ہیں بزنس مین کے اپنے کامتے ہوتے ہیں انڈسٹری چلانے والوں کے اپنے جانثار ہوتے ہیں جوشب و روز محنت کر کے اسے کامیاب کاروباری بنائے رکھتے ہیں ۔ طفیلیوں کی تعداد ہر سیاسی بندے کے پا س وافر ہوتی ہے کاروبار چلانے میں محنت یہ کارندے کرتے ہیں اور سیاسی لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں الیکشن لڑنے پر جتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہے کامیابی کی صورت میں اس سے کئی گنا مختلف حربوں سے ان کی جھولی میں گرنا شروع ہو جاتا ہے عوام کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو ان کے لیے ذاتی طور پر فوائد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے اب ماشااللہ پیشہ ور سیاستدان ہیں جن کی نسلیں اس شعبے سے وابستہ ہوچکی ہیں اب تو ان کے مزید بچے بھی عوامی نمائندے بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جنہوں نے غربت یا غریب عوام سے کبھی تعلق رکھا ہی نہ ہو وہ بھلا ان کےلئے کیا کر سکتے ہیں انہیں تو ان غریبوں اور عوامی مسائل کا ادراک ہوتا ہی نہیں ہے عیش و عشرت میں زندگی گزارنے والوں کو کیا معلوم کہ دو وقت کی روٹی کمانے کےلئے غریب کو کیا کیا کچھ کرنا پڑتا ہے ان امیر کبیر شہزادوں کی بلا سے کوئی جئے یا مرے ۔ فوٹو سیشن کے لیے وہ کسی غریب کو گلے لگا لیتے ہیں یا ووٹ کے حصول کےلئے کچے گھروں کا رخ کرتے ہیں یہ ایکشن ضروری ہوتا ہے تاکہ ٹی وی یا اخبار میں خبر نشر ہو اور فوٹو کی صورت میں مستقل ریکارڈ بھی محفوظ ہو ۔ ووٹ دینے والے عام لوگ اگر سوچنے کی زحمت کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کا کام سیاستدانوں کے ڈیروں پر روٹی اور چائے لیکر ڈھول کی تھاپ پر ناچتے رہنا اور نعرے لگانے کے علاوہ کوئی واضح ذمہ داری نہیں ہوتی۔ڈنگ پٹاو کھانا ملتا ہے اور وہ مع اپنے گھر والوں کے آنکھیں بند کر کے صاحب کو یا اسکے ٹبر کے بندے کو ووٹ ڈال آتے ہیں ۔ ووٹر خود تالیاں بجانے والوں میں رہ کر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک کو دنیا کے نقشے پر ابھرے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ملک کی معاشی حالت نہ بدلی بلکہ دن بدن ابتر صورت حال ہوتی رہی کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ روزمرہ کی اشیا خریدنے کی سکت بھی جاتی رہے گی کاروباری طبقے کی موجیں لگی ہوئی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بکرے کا گوشت دو ہزار روپے سے لیکر بائیس سو روپے تک ہے سبزیاں خریدنے کے مواقع بھی ماند پڑتے جا رہے ہیں دالیں چار ساڑھے چار سو روپے تک مل رہی ہیں انڈے چار سو روپے درجن ہیں مرغی کا گوشت ڈبل قیمت پر فروخت ہو رہا ہے چکی کاآٹا تقریبا سات ہزار روپے من ہے عام گھروں میں دو وقت کی روٹی چلانا مشکل ہو چکی ہے ۔ ایسے حالات میں عوام کا رونا تو بنتا ہے مالدار سیاستدانوںپر ان حالات کا کچھ اثر نہیں پڑتا تکالیف تو عام آدمی کو ہیں انہیں تو نہیں وہ خود بازار کبھی خریدوفروخت کے لیے نہیں جاتے لہٰذا نہ انہیں قیمتوں کا اندازہ ہے نہ ان کوعلم ہے سنی سنائی باتوں پر انکا گزارا چلتا ہے کونسی نئی گاڑی مارکیٹ میں آئی ہے اسکی قیمت کیا ہے آرڈر دینے کی صورت میں کتنے عرصے میں اسکی ڈیلیوری ہوتی ہے ان باتوں میں لیڈران کی دلچسپیاں زیادہ ہوتی ہیں عوام کے گھروں کا چولہا جلتا ہے یا ٹھنڈا پڑ گیا ان کی بلا سے اگر ان لیڈروں کا ہاضمہ خراب ہو جائے تو میڈیکل چیک اپ کے لیے ملک سے باہر جا کر بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے اعلی ہوٹل میں قیام ، طعام ان کے لیے معمول کے اخراجات ہیں بچوں کو گرمیوں کی چھٹیاں ملک سے باہر گزارنا ضروری ہے اس طرح ان کو ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقوں کا عملی تجربہ ہوتا ہے جو انکی زندگی کےلئے بہت ضروری ہے۔ملک کے حالات کچھ اس طرح ابتر ہو چکے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کس طرح صحیح سمت اختیار کریںگے اشیا خوردونوش کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے کہ فکسڈ انکم گروپ کے لوگ کافی پریشان ہیں سمجھ نہیں آتا کس طرح اخراجات کو کنٹرول کیا جائے زندگی میں لگژری نہیں صرف ضروریات زندگی کو پورا کرنا مشکل ترین عمل بن چکا ہے ۔ کیا کھانا پیناچھوڑ دیا جائے ایسا کرنا نا ممکن ہے کونسی چیز کو الوداع کیا جائے تاکہ مہینہ ذہنی پریشانی کے بغیر گزرے سمجھ نہیں آ رہا کیا کیا جائے۔
عوام کے چہروں پر پریشانیوں سے پیلاہٹ جھلک رہی ہے اور لیڈروں کے چہروں پر لالیاں پھیلی ہوئی ہیں بڑے بڑے گھر بڑی بڑی گاڑیاں اعلی اور قیمتی لباس بے دریغ ذاتی اخراجات نہ فکر نہ فاقہ زندگی پرتعیش ماحول میں گزر رہی ہے ۔ عوام کے مسائل تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے اس بارے اسمبلی میں دو چار بار تقریر کر دی اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے اور بھی غم ہیں زمانے میں اس کام کے سوا ۔ ایک صاحب فرمانے لگے بھائی صاحب ان سیاسی لیڈروں کے بچوں کی جب شادیاں ہوتی ہیں تو بے دریغ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں سٹیٹس کے مطابق یہ ایک تقریب ہوتی ہے جس پر اتنا خرچ ہوتا ہے کہ کئی بچیوں کی شادیاں سادہ طریقے سے ہو سکتی ہیں کئی کئی دن تو طعام اور فنکشن جاری رہتے ہیں جتنا نامور لیڈر ہوگا اسی ناموری کے ساتھ اخراجات ہوتے ہیں کنویں میں سے دو چار ڈول نکال لیے جائیں تو کنویں کو کیا فرق پڑتا ہے جتنا نکلتا ہے اس سے زیادہ آ جاتا ہے غریبوں نے غریب ہی رہنا ہے شادی بیاہ جیسی تقریبات پر ان کے ذریعے سے ان لیڈروں یا یوں کہہ لیں عوام کے ان خدمت گزاروں کو ان چھوٹے موٹے اخراجات سے کچھ فرق نہیں پڑتا ان کے لیے تو ایسے ہوتا ہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ آپ جیسے لوگ تبصرے کرتے رہتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں ہوتاوقت کی لگام ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے جدھر چاہے موڑ لیں انکی تو ہر وقت پانچوں انگلیاں گھی میں اورسر کڑاہی میں ہے ، بہر حال ملک کے معاشی حالات تسلی بخش نہیں اور نہ ہی عوام پرسکون ہیں اخراجات کنٹرول سے باہر ہیںادھار لینے دینے کا سلسلہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوچکا ہے سفید پوش لوگ سخت پریشانی کے عالم میں شب و روز گزار رہے ہیں تنخواہ دار طبقہ سرکاری ملازمین اور پینشنرز سخت پریشان ہیں حکومت وقت کو چاہیے ایسی کمیٹیاں تشکیل دے جو مارکیٹوں کا سرپرائز وزٹ کریں اور دکانداروں کا محاسبہ کریں تاکہ ان لوگوں نے جو اپنی مرضی سے لوگوں کی جیبوں کو ناجائز طریقے سے کاٹنا شروع کیا ہوا ہے اسکا تدراک ہو سکے اور اشیا خوردونوش کی قیمتیں بھی مناسب سطح پر آئیں عوام اس اقدام کو نہ صرف سراہیں گے بلکہ تعاون کا سلسلہ بھی قائم کریں گے آٹھ فروری 2024 کو انتخابات ہونگے اللہ کرے ایسی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرکے حکومت قائم کرے جسے جذباتیت کے بجائے مقبولیت پر انحصار ہو اور عوام کے مسائل جو اس وقت تہہ در تہہ ہو چکے ہیںانکا واضح اور دیرپا حل بھی تلاش کر سکیں ۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کی گونج نہیں بلکہ بہترین کارگردگی کی گونج عوام کا مقدر ٹھہرے اور ہمارا ملک ترقی پذیرنہیں بلکہ ترقی یا فتہ کہلائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے