کالم

زندگی پر کیفیات کیوں نہیں

کئی دنوں سے میرے ذہن اور دل میں یہ خیال بار بار پیدا ہو رہا تھا کہ حضورﷺ پر درود شریف پڑھنے سے جو ہمارے بزرگوں کی کیفیات ہوا کرتی تھیں اس طرح ہماری قلبی حالت میں واضح تبدیلی پیدا کیوں نہیں ہوتی دل ایک پتھر کی طرح بے حس بس دھڑک رہا ہے جس سے جینے کی گواہی مل رہی ہے اسکی وجہ کیا ہے بہت سے خیالات آنکھ مچولی کھیل رہے تھے لیکن وجوہات کی جانب اس خیال کا رخ نہیں بن رہا تھا پھر ضمیرنے جھنجوڑا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ قلبی کیفیت کا یہ عملی فرق ہے کیونکہ ماڈرن آدمی کچھ اور ہے اور قدیم آدمی کوئی اور تھا یہ فرق محسوس بھی ہوتا ہے اور مشاہدے میں بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ دل کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو جسم کے باقی حصوں میں ہم ٹھیک نہیں ہیں۔ ماضی کے لوگ سادہ رہائش سادہ خوراک سادہ لباس کے ساتھ دل اور جسم کو پاک رکھنے کے عادی تھے ان کے پاس متعدد علوم نہیں تھے علم اگرچہ محدود تھا لیکن ان کے پاس شوق تھا تعلق استوار کرنے کا عملی اظہار تھا ان کی روح بلالی تھی حضورﷺ سے قربت مقصد تھا لیکن بد قسمتی سے آج کے انسان کا ضابطہ حیات صرف دولت کو ہر جائز اور ناجائز طریقے سے حاصل کرنا ہے اللہ سے ہم صرف دولت اور دنیا کی کامیابیوں کے علاوہ کچھ نہیں مانگتے ہر نماز کے بعد اگر نماز پڑھنے کی توفیق اللہ نے عطا کی ہو تو بس یہی دعائیں ہوتی ہیں کہ دنیا کامیاب ترین ہو جائے عیش آرام ہو ناموری ہو اپنے ہی جیسے دوسرے لوگ متاثر ہوں علم سے لوگ برتری کی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو کر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں سب کچھ دکھاوا اور معاشرے میں ناموری کا حصول مقصد حیات ہے وقت کے ساتھ ساتھ ان معمولات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن کیفیت پیدا کرنے والے معمولات سے کوسوں دوری ہو چکی ہے۔ دانائی اور علم نے مرکزیت بنا لی ہے دیہاتی سے پوچھیں کہ آپ نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے تو وہ کہے گا کہ قرآن پڑھا تھا اور نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاتا ہوں دیگر امور سے فارغ ہو کر صرف درود شریف پڑھنے کی عادت بنانے کی کوشش میں ہوں۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ آسمان، زمین اور ان کی حقیقت کیاہے منشائے ایزدی کا فارمولا کیا ہے فرشتے کیا کرتے ہیں اللہ پاک کا نظام کیسے ہے اور کسطرح چل رہا ہے سرکار دو عالمﷺ انسانی روپ میں عرش پر رات بسر کرتے ہیں اللہ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے انبیا سے ملاقات ہوتی ہے محبت کرنے والوں نے کہا احد اور احمد ہیں صرف م کا فرق ہے اگر اس فرق کو سمجھ جائیں تو سرکار ﷺکامقام اللہ چاہے تو کسی حد تک سمجھ آ جاتا ہے عقیدت اور احترام میں اضافہ ہوتا ہے کیفیات بدل جاتی ہیں دنیا اتنی ہی عزیز رہتی ہے جتنی ضرورت ہے پہلے زمانے میں لوگ فارغ التحصیل ہو جاتے تو ظاہری علم کے ساتھ باطنی علم کی تلاش شروع کر دیتے امام غزالی ؒ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں حاصل کی تھی ان کے پاس عقیدت محبت کا سمندر تھا لازوال تعلق تھا اللہ کی بندگی عروج پر تھی اور اسکا انعام حضورﷺ سے قربت اور محبت کی شکل میں تھا۔ آجکل ہم خود کو اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں علم ہی علم ہے دقتیں ہیں پریشانیاں ہیں ذہنی اور قلبی سکون برباد ہے اب انسان علم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ دنیا آسان ترین ہو جائے زندگی تعیش سے گزرے لوگ امارت سے متاثر ہوں زندگی میں کوئی پابندی نہ ہو آزاد انسان انفرادی حیثیت میں نامور ہو دولت کے انبار ہوں اور یہ انبار بڑھتے ہی چلے جائیں۔ قلبی سکون ختم ہو گیا اسکے حصول کا شوق بھی ماند پڑ گیا، پہلے مساجد کم تھیں نمازی زیادہ تھے اب حالات اس کے برعکس ہیں بات کمرشل ازم پر آ گئی ہے مسجد کی دکانیں ہیں بچے پڑھ رہے ہیں مستقل قیام اور طعام کا ذریعہ مسجد ہے مذہب پر تقریر زیادہ ہے عمل کم ہو چکا ہے انسان کے پاس وقت نہیں رہا دیگر مشاغل بڑھ چکے ہیں نماز یا قرآن پڑھنے کا وقت نہیں رات کو دیر تک ٹیلی ویژن پر ڈرامہ یا کرکٹ میچ دیکھنے کا شوق اور وقت تو ہے لیکن صبح کی نما ز پڑھنے کے لیے آنکھ نہیں کھلتی نیند کا شدید غلبہ ہوتا ہے اللہ نے کرم کیا کہ ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا سرکار ﷺ کی امت کا فرد بنایا کیا اللہ نے ہم سے یہ مشورہ کیا تھا کہ آپ کو کونسا مذہب اور کس امت کا فرد بنا کر بھیجا جائے یہ اسکا خاص کرم ہے کہ ہم مسلمان بن کر دنیا میں آئے حضورﷺ کی سنگت اور صحبت پیدائش سے پہلے ملی ان کی محفل میں روح حاضری دیتی رہی جن کی روح حضورﷺ کی خدمت میں حاضررہی وہ اس دنیامیں آکر بھی حضورﷺ سے اپنا تعلق اور نسبت کو کم نہیں ہونے دیتے، آجکل نہ جانے کیوں حق اور سچ کی باتوں میں تاثیر نہیں رہی اسکی وجہ بات کرنے والے کا ذاتی کردار ہے سچ بولنے والے کے اعمال کو احکامات الٰہی کے تحت ہوں گے اور ان میں ضرور تاثیر ہوگی۔ اگر قرآن سنانے والے کا کردار سچا نہیں ہوگا تو تاثیر کہاں سے آئے گی۔ اگر دین بتانے والے کے قول، فعل میں تضاد ہوگا تو تاثیر کہاں سے پیدا ہوگی ماڈرن آدمی رات کو جگانے کےلئے آلارم لگاتا ہے جب وقت پر بجنا شروع ہو جائے تو اسے بند کر دیتا ہےکہ اس کے شور سے نیند خراب ہوتی ہے ماڈرن مین خیالات معمولات اور ورائٹی میں الجھ گیا ہے کثیر المقصدیت میں جکڑا ہوا ہے پرانے زمانے کے لوگ مطمئن تھے راضی بہ رضا تھے وہ درود شریف پڑھنے کو فضیلت سمجھتے تھے ضروریات اور خواہشات کی لمبی لسٹیں ان کے پاس نہیں تھیں درود کی محافل آجکل ضروریات دنیا کو پورا کرنے کےلئے سجائی جاتی ہیں ۔
کمرشل طور طریقوں سے درود شریف پڑھا جاتا ہے بڑی بڑی روحانی شخصیات بھی انہی معمولات کی شکار ہیں۔ ذوق اور شوق کم ہو گیا ہے صرف ضروریات زندگی پوری کرنے کی جدوجہد جاری ہے دنیاوی وقار کے حصول کے لیے کو شش اور طرح طرح کی ماڈرن آسائشیں مطمع نظر ہیں انسان طرح طرح کے مقاصد اور ان کے حصول کی دوڑ میں ہی مصروف ہے اسکے علاوہ کسی عمل یا بات پر فوکس نہیں درود کی محفل میں اکثریت جیب میں پرچیاں لے کے بیٹھی ہوتی ہے یعنی درود برائے ضرورت اوپھر لنگر۔ درود یہ نہیں ہوتا کہ صرف دعا یہ ہو کہ اے اللہ تو اپنے محبوبﷺ کی یاد میں رکھ،درود کا معنی ہے یاد، ادب سے یاد کرنے کا نام درود ہے۔ جب آپ محبت عقیدت اور احترام سے آپﷺ کو یاد کریں گے تو آپ پر بھی ان کی نظر کرم پڑے گی یہ صرف درود پڑھنے کی بات نہیں ادب حترام اور عقیدت سے سرکارﷺ کو یاد کرنے کا نام درود ہے۔ پرانے زمانے لوگ نماز پڑھتے تھے لیکن عملی طور پر ہر وقت نماز کی کیفیت میں رہتے تھے، سوچ سے عمل سے زبان سے کبھی نہ کسی انسان کو تکلیف دیتے تھے نہ اسے نقصان پہنچانے کےلئے منصوبہ سازی کرتے ، انکی زندگی باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے بے لوث محبت میں گزرتی تھی، ذہن کے کسی گوشے میںمنصب پسندی کا اظہار نہیں ہوتا تھا تعلقات میں بے لوث تھے مساجد انہی لوگوں کی موجودگی سے آبا د تھیں اب ضرورت زندگی نے مساجد جیسے متبرک مقام کو کمرشل سنٹر بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اسی متبرک مقام سے آمدنی کا حصول وابستہ ہو چکا ہے درود پڑھنے اور اسکی کیفیات کے حصول کےلئے ضروری ہے وضو ہو نصف شب ہو تنہائی کا عالم ہو سجدے ہوں رقت طاری ہو درود شریف جاری ہو پھر کیفیت پیدا ہوتی ہے ضرورتوں کے حصول کےلئے درود شریف پڑھنا نہ ہو۔ دنیاوی مسائل کے حل کے لئے درود پڑھنا نہ ہو تو کیفیت پیدا کرنے کے مواقع اللہ کی طرف سے پیدا ہوسکتے ہیںورنہ انگلش اور اردو میڈیم میں پڑھ کر اچھی ملازمت کا حصول ہی پیش نظر رہتا ہے مذہب اور اس زندگی کا جو تعلق ہونا چاہیے نہیں بنتا ماڈرن آدمی کو رسالت مآب ﷺ کے دربار میں حاضری کا ذوق اور شوق ہی نہیں سلطانی بھی عیاری اور درویشی بھی عیاری یعنی کوئی شے بھی اپنے مقام پر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دعا یہ ہونی چاہیے کہ اللہ ہمیں اپنے اور سرکارﷺ کے جلوﺅں سے سرفراز فرمائے زمانے کی آلائشوں سے نکالنے کی کوشش کی جائے تو سرکارﷺ کے قدموں سے قربت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے یہ بات بھی اپنی جگہ برحق ہے کہ حضورﷺ کا ذکر اور انکی یاد انکے نصیب میں ہے جنکی روحیں دنیا میں آنے سے پہلے حضورﷺ کی محفل میں حاضر رہی ہوں جو وہاں پرورش پا کر یہاں آئی ہیں انہی روحوں کو آسانیاں حاصل ہوتی ہیں دنیا کی ضرورت اسی حد تک ہی رہ جاتی ہے کہ سادگی اور اللہ کے بھروسے پر یہ زندگی گزرے مال، دولت کے حصول سے نکل کر حقیقت کی طرف سفر اختیار کیا جائے ورنہ روٹین عمل صرف عمل ہی ہوتا ہے حقیقی کامیابی نہیں ملتی۔دعا کریں اللہ ہمیں حضورﷺ کی یاد کےلئے قلبی اور روحانی آسانیاں عطا فرمائے کہ ہم شوق اورذوق سے انکی یاد میں رہیں اور آخری وقت جب آئے تو ان کے دیدار کی سعادت میں رخصت ہوں۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri