حلقہ احباب سردار خان نیازی کالم

سابق سپہ سالار کے خلاف گفتگو عمران کے لئے مناسب نہیں

لاہور تہذیب ثقافت اور تمدن سے مالا مال شہر ہے ، جو صدیوں سے آباد چلا آرہاہے ، متحدہ ہندوستان نے بھی لاہور میں اپنی منفرد پہچان برقرار رکھی، لاہور یونیورسٹیوں ،مسجدوں اور ولیوں کا شہر ہے ، یہاں داتا ہجویری ؒ ، غازی علم دین شہید جیسی ہستیاں آسودہ خاک ہیں۔
میں نے اپنے کالم کاآغاز لاہور شہر سے اس لئے کیاکہ میںنے گزشتہ دو دن لاہور میں گزارے ، لاہور شہر سے مجھے ہمیشہ سے محبت رہی ہے یہ شہر روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے اور اس شہر کی روشنیاں سرحد پار ہمارے مشرقی ہمسائے کے سینے پر مونگ دلتی چلی آرہی ہیں، 65کی جنگ میں بھارتی سیناﺅں کی خواہش تھی کہ وہ لاہور کے جم خانے میں بیٹھ کر فتح کا جام پئیں گے مگر ان کا یہ خواب زندہ دلان لاہور نے خاک میں ملا دیا، 65کی جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو بی آر بی نہر کے اس طرف نہیں آنے دیااور شکست کی کالک اس کے منہ پر مل دی ،لاہور شہر سے محبت کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ میرے قریبی عزیز لیفٹیننٹ جنرل ضرار عظیم نیازی اس شہر کے کور کمانڈر رہے ہیں۔
پاکستان کے 75سالہ تاریخ میں ہر سیاستدان کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ تخت لاہور کو فتح کر لے ، ذو الفقار علی بھٹو جیسے سیاستدان نے دو بار لاہور سے الیکشن لڑ کر اپنی اس خواہش کو پورا کیا، بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 1974میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ذو الفقار علی بھٹو نے اس نوزائدہ ملک کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی لاہور شہر میں کیا۔
ان دنوں پاکستان کی سیاست بھی ماضی کی طرح لاہور کے گرد گھوم رہی ہے ، موجودہ وزیر اعظم کا تعلق بھی لاہور سے ہے اور وہ ایک بار پھر تخت لاہور پر قبضہ جمانے کی خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیںا ور ان کے روایتی حریف چوہدری پرویز الٰہی بھی لاہور میں موجود ہیں، سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی زمان پارک میں واقع اپنے آبائی گھر کو ان دنوں اپنا مسکن بنا رکھا ہے ، جہاں بیٹھ کر وہ پورے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں۔
اپنے دورہ لاہور کے دوران صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سیاستدانوں کے ساتھ بھی میری نشست رہی ، گو کہ یہ میرا دورہ کونسل آف پاکستان نیوز ایڈیٹر کے ایک اہم اجلاس کے سلسلے میں تھا مگر ظاہر ہے صحافی جب کسی دوسرے شہر جاتا ہے تو وہاں کے سیاستدانوں کے ساتھ بھی گفت و شنید اور نشست لازمی امر ہے ، اپنے دورہ لاہور کے دوران میں نے سی پی این ای کے چیئرمین کی حیثیت میں وفد کے ساتھ گورنر پنجاب سے بھی ملاقات کی اور ان سے ملکی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی۔
سی پی این ای کے اجلاس میں شرکت کیلئے ملک بھر سے 45کے لگ بھگ سینئر ایڈیٹرز آئے تھے ، ہماری مصروفیات میں ایک مصروفیت سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بھی تھی، اور اس ملاقات کی خواہش خود سابق وزیر اعظم نے کی تھی، چنانچہ سی پی این ای کے تمام ممبران ان سے ملاقات کیلئے زمان پارک پہنچے ، یہ ملاقات ڈھائی گھنٹے سے زائد جاری رہی جس کے دوران سابق وزیر اعظم نے صحافیوں کی جانب سے کیے جانے والے تندو تیز اور تلخ سوالات کے جواب بھی دیئے ، ہر صحافی نے اپنی سوچ اور اپنے ذہن کے مطابق سوالات کیے، سندھ سے آنے والے ہمارے بھائیوں نے سندھ کے حوالے سے سوالات اٹھائے ا ور سابق وزیر اعظم سے کہا کہ آپ نے ملک میں بڑے بڑے کام کیے مگر سندھ کیلئے آپ نے کوئی قابل ذکر کام نہیںکیا۔
میں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دور میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے جو اچھا کام ہوا وہ یہ تھا کہ اس سے قبل ایجنسیاں جو اشتہارات کی فراہمی پر معمور تھیں وہ حکومت سے تو اپنے بل وصول کر لیتیں مگر اپنے کلائینٹ کو ان کی ادائیگی نہیں کرتی تھیں، مگر آپ نے 15فیصد کا فارمولہ طے کیاجس سے مڈل کلاس میڈیا کو آسودگی حاصل ہوئی اور اس مقصد کے لئے میں نے اور مر حوم عارف نظامی نے طویل جدوجہد کی ۔
میں نے سابق وزیر اعظم سے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بات بھی کہہ دی کہ آپ ایک با اصول اور دیانتدار آدمی ہیں مگر آپ جنرل(ر)باجوہ کیخلاف جس قسم کی گفتگو اپنے جلسوں اور ہمارے سامنے کررہے ہیں مجھے اس پر سخت اختلاف اور تحفظات ہیں کیونکہ فوج کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ادارے کا نام ہے جو ملکی ، معاشی اور دفاعی استحکام کی ضمانت ہے ، فوج سے محبت میری رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے اور میں فوج کیخلاف کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ، چہ جایکہ میں اسے برداشت کروں گا چنانچہ میں نے یہ کڑوی بات سب کی موجودگی میں عمران خان کو کہہ دی ، میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو نصیحت بھی کی کہ اگر آپ پاکستان میں صحت مندانہ سیاست کرنے کے خواہش مند ہیں اور وطن کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ آپ کے دل میں موجزن ہے تو آپ اس ادارہ یا اس ادارے سے وابستہ افراد پر تنقید کرنا چھوڑ دیں ، میری یہ بات سن کر سابق وزیر اعظم نے میری تائید کی میں نے بطور صحافی یہ بات کرنا فرض سمجھا آگے چل کروہ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں وہ ان پر منحصر ہے ۔
ڈھائی گھنٹے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ، زمان پارک سے نکلتے وقت میں سوچ رہا تھا کہ عمران خان جب اقتدار میں تھے تو اس وقت بھی میں نے اپنے کالموں ، ٹی وی پروگراموں کے ذریعے عمران خان کو ایسے ہی مشوروں سے نوازا تھا مگر شاید ایوان اقتدار میں جاکر ہمارے حکمران سچ سننے کوتیار نہیں ہوتے اور وہ صرف سب اچھا سننے کے عادی ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri