کالم

سردار عبدالقیوم خان: بصیرت، قیادت اور یادوں کی کہکشاں

زندگی میں کچھ ملاقاتیں محض رسمی نہیں ہوتیں، وہ دل کے اوراق پر نقش ہو جاتی ہیں۔ میری زندگی میں کئی بڑے لوگوں سے ملاقات ہوئی، مگر جن چند شخصیات نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا، ان میں آزاد کشمیر کے عظیم رہنما سردار عبدالقیوم خان نمایاں ترین ہیں۔ پہلی مرتبہ ان سے ملاقات 1977 میں ہوئی، جب میں ایک نوجوان سیاسی کارکن تھا اور سیاست کے پیچ و خم کو سمجھنے کی جستجو رکھتا تھا۔ آخری ملاقات اس صدی کے پہلے عشرے میں جدہ میں ہوئی۔ یہ ملاقاتیں وقت کے ساتھ ساتھ یادوں کی قیمتی دولت میں بدل گئیں۔ سردار عبدالقیوم خان کی شخصیت میں ایک عجیب جاذبیت تھی۔ وہ عام سے عام محفل میں بھی ایسے نمایاں ہو جاتے جیسے کہ چاندنی اندھیری رات میں۔ ان کی گفتگو میں دانش، ان کے رویے میں وقار، اور ان کی سیاست میں اصولوں کی خوشبو نمایاں تھی۔ وہ ایسے رہنما تھے جو نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ ان کا لباس ان کی شخصیت کی طرح سادہ مگر پر وقار تھا۔ شلوار قمیض پر کوٹ پہنے ہوئے جب وہ محفل میں داخل ہوتے تو ایک منفرد شان اور متانت محسوس ہوتی۔ یہ لباس صرف ایک فیشن نہیں تھا، بلکہ ان کی قومی سوچ اور ثقافتی وابستگی کا آئینہ دار تھا۔ ان کا اندازِ نشست و برخاست بھی ایسا تھا کہ لوگ خود بخود ان کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ میں نے کئی عالمی رہنماں کو دیکھا، مگر یہ حقیقت ہے کہ شلوار قمیض پر کوٹ میں سردار عبدالقیوم خان کا رعب اور سادگی ایک ساتھ جھلکتی تھی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ رسمی تعلیم زیادہ نہ ہونے کے باوجود وہ عالمی سیاست کی باریکیوں کو سمجھتے اور انٹرنیشنل فورمز پر کشمیر کا مقدمہ اس خوبی سے پیش کرتے کہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ بھی دنگ رہ جاتے۔ اقوام متحدہ سے لے کر اسلامی دنیا کے سربراہان تک، سب نے ان کی بات کو اہمیت دی۔ میں نے خود دیکھا کہ وہ جب بھی کشمیر پر گفتگو کرتے تو دلیل، حوالہ اور تاریخی پس منظر کے ساتھ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ فیصل جیسے حکمران بھی ان سے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ قیوم، تم ہمیں لکھ کر دو کہ ہماری کشمیر پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ یہ جملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک سادہ مگر بصیرت رکھنے والا شخص عالمی طاقتوں کو اپنی سوچ کا قائل کر سکتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ اپنے بیٹے کی سیاست کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیونکہ لوگ اسے ایک ابھرتے ہوئے لیڈر کے طور پر دیکھنے لگے تھے۔ انہوں نے بڑے ٹھہرا کے ساتھ کہا: انجینئر صاحب، سیاست میں نہ پدری شفقت کام آتی ہے اور نہ مادری۔ یہ جملہ آج بھی میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سردار صاحب کے نزدیک سیاست ذاتی مفاد یا خاندانی وراثت نہیں بلکہ اصول اور عوامی خدمت کا نام تھا۔آج جب میں راولاکوٹ اور دیگر علاقوں کی قیادت کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ چھوٹی قیادت نے بڑے مقصد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ جو کبھی خون کو گرما دیتا تھا، آج کمزور ہو کر محض رسمی سا رہ گیا ہے۔ یہ المیہ اس وجہ سے ہے کہ موجودہ قیادت نے اصولوں سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ سردار عبدالقیوم خان نے ہمیں یہ سکھایا تھا کہ قیادت ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ ایک بڑے مقصد کے لیے کی جاتی ہے۔ افسوس کہ آج وہ جذبہ ناپید ہے۔ 2010 میں جب حریت کانفرنس کا ایک وفد اسلام آباد آیا، جس میں میر واعظ عمر فاروق، غلام عباس اور سجاد لون شامل تھے، تو تحریک انصاف کی نمائندگی میں میں بھی اس وفد کے ساتھ تھا۔ اس وقت عمران خان سے پوچھا گیا کہ کشمیر پالیسی کیا ہوگی۔ عمران خان نے کہا: جو آپ کہیں گے، ہماری پالیسی وہ ہوگی۔ یہ لمحہ میرے لیے اہم تھا کیونکہ یہ اس بات کا غماز تھا کہ ایک چھوٹی جماعت بھی اپنے اصولوں کو سامنے رکھ کر موقف اپنا سکتی ہے۔ سردار صاحب کی ایک اور خصوصیت ان کی سادگی تھی۔ میں نے کشمیری کمیونٹی کو جدہ میں دیکھا، چھ دن سخت محنت کے بعد ہفتے کے روز بہترین کپڑے پہن کر ہوٹلوں میں جمع ہوتے، مگر کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے، ہمیشہ دوستوں کے ساتھ۔ سردار صاحب انہی محفلوں میں اپنی سادگی اور کشادگیِ دل سے لوگوں کے دل جیت لیتے۔ وہ ہر کسی سے عزت سے ملتے اور نوجوان قیادت کو بھی آگے بڑھنے کے مواقع دیتے۔ ایک بار ایک صحافی نے مذاق میں کہا کہ وہ بیگم سے ڈرتے ہیں۔ سردار صاحب نے مسکرا کر کہا: جو بیگم سے ڈرتا ہے وہ دنیا سے نہیں ڈرتا۔ یہ جملہ محفل میں ہنسی کا سبب بھی بنا اور ان کی حاضر جوابی کی ایک جھلک بھی دکھا گیا۔سردار عبدالقیوم خان ہمیشہ کہتے تھے کہ بڑے بڑے مکان بنانے کے بجائے اپنے بچوں کو تعلیم دلا، شہری جائیداد بنا۔ یہ نصیحت ظاہر کرتی ہے کہ وہ محض سیاستدان نہیں بلکہ اپنی قوم کے حقیقی خیرخواہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ قوم کی ترقی کا راز تعلیم اور معاشی استحکام میں ہے۔ ان کے فیصلوں اور تعلقات میں اصول نمایاں تھے۔ نواز شریف کے ساتھ ان کا رویہ اس بات کی گواہی ہے کہ وہ وقتی فائدے سے زیادہ اصولی موقف کو اہمیت دیتے تھے۔ جنرل ضیا الحق بھی ان کے مداح تھے اور ان کی سیاسی بصیرت کو تسلیم کرتے تھے۔ میں جب بھی ان کے ساتھ گزاری محفلوں کو یاد کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ایک یونیورسٹی سے سبق حاصل کیا۔ وہ ہمیں سکھاتے کہ سیاست محض طاقت کا کھیل نہیں بلکہ عوام کی خدمت اور اصولوں کی پاسداری ہے۔ ان کی موجودگی میں محفلیں روشن اور دلکش ہو جاتیں۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی یادیں، اصول اور نصیحتیں آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کا نام آتے ہی دل میں احترام جاگ اٹھتا ہے۔ آنے والی نسلوں کو یہ جاننا چاہیے کہ سردار عبدالقیوم خان جیسے لوگ ہی اصل میں حقیقی رہنما ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے