کالم

سفارت حضرت عثمان ؓ اوربیت رضوان

riaz chu

مسلمانوں کو مکہ جیسا مقدس شہر چھوڑے ہوئے چھ سال کا عرصہ گذر چکا تھا،مدینہ رہتے ہوئے بھی ان کے دل و دماغ میں بیت اللہ بستا تھا۔ آنحضرتﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اورعمرہ کیاپھر بعض صحابہؓ نے سر کا حلق کروایا اور بعض نے سر منڈوایا۔نبی کا خواب چونکہ وحی کے درجے میں ہوتا ہے اسلئے یہ خواب گویا اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ جا ئیں اورعمرہ کی ادائیگی کریں۔یہ خواب سنتے ہی صحابہ کرامؓ کے دلوں میں محبت الٰہیہ کی چنگاری بھڑک اٹھی اور وہ خانہ خدا کی زیارت کے لیے بھرپور تیاری میں مصروف ہو گئے۔نبی کریم یکم ذی القعدہ ،6ہجری چودہ سو افراد کے قافلہ کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ ہوئے،چونکہ اس سفر کا مقصد خالصةً عمرہ ادا کرنا تھا اور جنگ کاکوئی ارادہ نہیں تھا؛اس لیے ضروری ہتھیاروں کے علاوہ کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لائے۔قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے۔
حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے،نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کے قافلے کو روک لیا۔ مکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلے پر ایک کنواں ہے جس کا نام حدیبیہ ہے ،اسی کنویں کے نام سے وہ گاو¿ں منسوب ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نبی کریمﷺ نے حضرت خراش بن امیہ خزاعیؓ کو ایک اونٹ پر سوار کر کے بطور قاصد اہل مکہ کی طرف یہ کہلا کر بھیجا کہ ہمارے اس سفر کا مقصد صرف بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کی ادائیگی ہے،ہم آپ سے نہ جنگ کرنے آئے ہیں اور نہ ہی کوئی اسلحہ ساتھ لائے ہیں،لہٰذا ہمارے لیے حرم کے دروازے کھول دیں اور ہم سے کوئی مزاحمت نہ کریں۔ اہل مکہ نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قاصد کے اونٹ کو قتل کر دیا اور پھر ان کے قتل کے در پے ہو گئے،حضرت خراشؓ ان سے بچ بچاو کر کے نکل آئے اور واپس آکر نبی کریم کو ساری صورتحال سے مطلع کیا۔
آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو بطورسفیر اہل مکہ سے بات چیت کرنے اور امن وامان کی ضمانت دینے کے لیے جانے کو کہا۔حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر جانے سے معذرت کر لی کہ یہ مصالحت کا موقع ہے؛ جب کہ میرا تندو تیز مزاج احتیاط کے باوجود مزاحمت کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔اس کے بعد آپ نے حضرت عثمانؓ کوقریش مکہ سے گفتگو کے لیے روانہ کیا۔ حضرت عثمانؓ اپنے ایک عزیز ابان بن سعیدؓ کی پناہ میں مکہ داخل ہوئے اور سرداران قریش سے بات چیت کی۔انھوں نے عمرہ کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا؛ البتہ حضرت عثمانؓ کی شرافت کی وجہ سے انھیں تنہا طواف کرنے کی اجازت دے دی۔ انھوں نے دوٹوک جواب دیا کہ ادھر میرے محبوب حرم کے درودیوار دیکھنے کو ترستے رہیں اور ادھر میں آپ کے بغیر اطمینان سے طواف کرتا پھروں، ایسا ممکن نہیں۔
بہرحال حضرت عثمانؓ نبی کریم کے بغیر طواف کرنے پر قطعاًآمادہ نہ ہوئے اور قریش نے حضرت عثمانؓ کو روک لیا،ادھر حدیبیہ میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر مسلمانوں پر آسمانی بجلی بن کر گری،نبی کریم صدمے سے نڈھال تھے،آپنے ارشاد فرمایا ”ہم عثمانؓ کا بدلہ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے“۔اس وقت آپ کیکر کے درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے،آپ نے اپنے ساتھ موجود چودہ سو صحابہ کرامؓ سے قصاص عثمانؓ پر بیعت لی،سب سے پہلے بیعت کرنے والے صحابی حضرت ابو سنانؓ تھے ۔ جب سب صحابہ کرامؓ بیعت کر چکے تو آپ نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھا اور ارشاد فرمایا ”یہ بیعت عثمانؓ کی جانب سے ہے“۔بیعت کا یہ عمل اور اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس قدرجانثارانہ تعلق حق جلّ مجد±ہ کو اس قدر پسند آیاکہ خود اس میں مداخلت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ”اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے “(الفتح)۔اس بیعت کو ”بیعت رضوان“ کہا جاتا ہے۔بیعت کرنے والے ان تمام صحابہ کرامؓ سے اللہ تعالی نے اپنے ابدی و ازلی کلام میں رضا مندی کا اعلان کیا؛چنانچہ ارشاد فرمایا”بلاشبہ اللہ تعالی ایمان والوں سے راضی ہو گیا جب وہ آپ کے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے ، جو(اخلاص) ان کے دلوں میں تھااللہ کو خوب معلوم تھا،پھر اللہ نے ان پر طمانیت کو اتارا“۔(الفتح)
تحقیق کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر محض افواہ تھی اور حضرت عثمانؓ بخیروعافیت ہیں تومسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔دوسری طرف مسلمانوں کی بیعت سے متعلق سن کر اہل مکہ مرعوب ہو گئے اوران کے ایمانی جذبے کو دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہوئے اور سہل بن عمرو کو صلح کے لیے بھیجا،شرائط صلح طے ہونے کے بعد آپﷺ نے حضرت علی ؓسے یہ تاریخی صلح نامہ تحریر کروایا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri