کسی بھی ملک کی معاشی واقتصادی ترقی کےلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے جس ملک میں آئین میںطے شدہ حدود وقیود کی پاسداری نہ کی جائے اس میں سیاسی عدم استحکام انتشار اور انارکی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو ملک کی وحدت کو بھی لے ڈوبتا ہے- ملک کو اس وقت کسی غیر جمہوری نظام کی وجہ سے مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا نہیں بلکہ سیاسی رہنماﺅں کے درمیان عدم اعتماد اور شخصیت پرستی کی سیاست سے پیدا ہونےوالے عوارض کی وجہ سے بے یقینی اور بحران کی کیفیت سے دوچار ہے-ملک میں ایسی سیاسی انتشار اور بے یقینی کی فضا پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبہ بری طرح متاثر ہورہا ہے اور یہ صورتحال ملک کی بقاءاور سلامتی کے لئے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب بن رہی ہے-پاکستان کو کسی بڑے بحران اور سیاسی عدم استحکام سے بچانے کےلئے بر دباری’ برداشت’ تحمل اور دانش مندی کی ضرورت ہے – جمہوریت کے استحکام، تحفظ، آئین کی حکمرانی اور ملک کے مفاد میں اس وقت مفاہمت اور رواداری کی فضا ضروری ہے- موجودہ صورت حال میں استحکام کا ایک نسخہ کار گر ہوسکتا ہے کہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا ہو اور سب مل کر بنیادی مسائل کی جانب توجہ کریں- سیاسی جماعتیں سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کو اپنا بنیادی مقصد بنا لیں تو یہی اس وقت ملک کی بہترین خدمت ہوسکتی ہے-انتخابی سیاست کو انا کی جنگ بنانے کی بجائے اصول پسندی پر عمل کیا جائے تو یہی اصل جمہوریت ہے- وطن عزیز کے موجودہ سیاسی ماحول میں مسلم لیگ(ن) اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان سیاسی روابط میں اضافہ اور مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان انتہائی اہم پیشرفت ہے- پاکستان کو درپیش مسائل’ مشکلات اور بحرانوں کے تناظر میں مفاہمتی ماحول کی آج جس قدر ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی- بلا شبہ ملک کے سیاسی’ معاشی اور سماجی مسائل کا حل کسی ایک جماعت کے پاس نہیں – پاکستان میں اسطی سطح پر اس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ کسی بھی شہری سے ڈھکا چھپا نہیں ہے-ملک میں ڈیڑھ ‘ دوسالوں سے سیاسی معاشی بحران بحران ساتھ ساتھ چل ہے ہیں ‘اعلی عدلیہ میں آئینی درخواستیں دائر ہونا شروع ہوئیں اور ان پر فیصلے آئے تو آئینی پیچیدگیاں بھی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ شامل ہوگئیں-اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان مکمل طور پر ہر قسم کے بحران کا شکار ہوچکا ہے اور یہ بحران کم ہونے کے بجائے ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور حرص اقتدار کی وجہ سے بڑھتے جارہے ہیں- آئینی الجھنوں اور پیچیدگیوں نے ایسے مسائل کھڑے کردیئے ہیں جن کے بوجھ تلے ریاستی ادارے کراہ رہے ہیں-ملک کی معیشت کی سانسیں آئی ایم ایف کی محدود امداد کے بل بوتے پر چل رہی ہیںجس میں عوامی سہولت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے -صنعت اور خدمات کے شعبے روز بروز تنزلی کا شکار ہیں -ملک کو درپیش بحرانوں نے سب سے زیادہ کاروباری ‘ تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے-مسلسل سیاسی’ اقتصادی بحرانوں کے شکار عوام مضطرب اور بہتری کے شدت سے خواہاں ہیں – عام آدمی کی زندگی مہنگائی’ بیروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے-بجلی’ گیس’ تیل اور دیگر ضروریات زندگی کے نرخ آمدنی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکے ہیں- اس وقت پاکستان کے عام شہریوں کےلئے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ بحران کا شکار ہے ایک جانب حالات اور دوسری جانب سیاستدانوں کی اقتدار کے لئے رسہ کشی ہے- دیکھنا یہ ہے کہ فوری توجہ اقتصادی بحالی پر مرکوز کی جائے یا سیاسی استحکام پر؟- حقیقت یہ ہے کہ دور جدید کی کسی بھی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اور اسے پولیٹیکل اکا نومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے ان میں سے اگر ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا- درحقیقت پاکستان کو درپیش تمام بحران آپس میں جڑے ہوئے ہیں اگر سیاسی بحران کا حل نکل آئے تو معاشی بحران بھی خود بخود حل ہوجائیگا – اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان میں اصولی اتفاق قومی سیاست کی جھیل میں پہلا پتھر ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس پیش رفت کی پیروی کریں اور اہم قومی مسائل کو حل کرنے کےلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کےلئے قدم بڑھائیں – متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماءفاروق ستار کا یہ کہنا بالاکل بجا ہے کہ صرف انتخابات کا انعقاد ہی بڑا چیلنج نہیں بلکہ اصل چیلنج تو یہ ہے کہ انتخابات کے بعد قومی معاملات کو کس طرح چلانا ہے-ملک کوکو اس وقت جن مشکلات’ بحرانوں اور بے یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے اس سے نبرد آزما ہونے اور پاکستان کو داخلی’ خارجی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کےلئے تمام سیاسی جماعتوں کا متحد ہونا ناگزیر ہے کیونکہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جہاں معیشت تباہی سے دوچار ہورہی ہے وہیں عوام الناس پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں- کسی بھی ریاست کی بنیادی کنجی یا کامیابی کانکتہ اس کے داخلی استحکام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے کیونکہ داخلی استحکام ہی عملی طور پر اسے دفاعی ‘ خارجی اور داخلی محاذ پر موجود مسائل سے نمٹنے کی حقیقی طاقت فراہم کرتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے سیاسیات میں ایک عمومی تھیوری یہ بھی دی جاتی ہے کہ جو بھی ریاست اپنے داخلی مسائل کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہی اپنے خارجی مسائل سے نمٹ کر بہتری کا محفوظ راستہ تلاش کرنے کی بھی صلاحیت قائم کرسکتی ہے۔تمام سیاستدان’ مبصرین’ تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارا بڑا مسئلہ داخلی مسائل سے جڑے عدم استحکام سے ہے۔داخلی مسائل سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس کےلئے عملی طور پر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ، وژن، سوچ، فکر، تدبر، فہم و فراست، مضبوط عملی قیادت سمیت ایک واضح اور شفاف روڈ میپ درکار ہے۔ معیشت اور دہشت گردی کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے تمام سٹیک ہولڈرز کے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے- ملک کی ترقی، سلامتی اور خودمختاری پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ہمیں یہ سبق اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا کہ ہم کیسے اپنی ماضی او رحال کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر یا دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنے قومی ایجنڈے کو ایک نئی جہت دیں۔ اس کےلئے ہمیں داخلی مسائل سے نمٹنے کےلئے ایک مشترکہ ایجنڈا درکار ہے اور یہ ہی ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے جہاں سب فریقین اپنے اپنے سیاسی اور قانونی یا آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان کے مفاد کی جنگ لڑیں او ریہ ہی جنگ ہم سب کی اپنی جنگ ہونی چاہیے۔