اداریہ کالم

سیکرٹری الیکشن کمیشن کااستعفیٰ اورعام انتخابات

سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے استعفیٰ دے دیا ہے‘اپنے استعفے میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا ہے کہ میری صحت کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی اس لئے عہدہ چھوڑدیا جبکہ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے تاحال سیکرٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ منظور نہیں کیا ۔ وزیراطلاعات ونشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ افواہوں پر دھیان نہ دیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن واقعی علیل ہیں، اللہ سے ان کی مکمل اور جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے اور کسی قسم کا کوئی بحران نہیں ہے۔ عمرحمیدخان نے کہاکہ صحت کی خرابی استعفے کی وجہ بنی ، میری صحت کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ عمر حمید خان چھ دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہے ہیں اور اب گھر میں زیر علاج ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے تاحال سیکرٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ منظور نہیں کیا ۔سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کے استعفے کی خبر پر ترجمان الیکشن کمیشن نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کورونا کے باعث رخصت پر ہیں اور عمر حمید کے استعفے سے متعلق کوئی اپڈیٹ نہیں۔ترجمان نے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید ایک ذہین اور محنتی افسر ہیں جوکہ بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں، عمر حمید کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی اور اس وقت میڈیکل ریسٹ پر ہیں۔ عمر حمید کی صحت نے اجازت دی تو وہ جلد اپنے فرائض انجام دیں گے ، ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے اور الیکشن کمیشن کے کسی کام میں رکاوٹ یا رخنہ نہیں ہے، تعطیلات کے دنوں میں بھی الیکشن کمیشن کے دفاتر کام کر رہے ہیں اور سیکرٹری کی غیرموجودگی میں دونوں اسپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کام احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ امید ہے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے استعفے سے عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدملک میں آٹھ فروری دوہزارچوبیس کو عام انتخابات کا انعقاد اب یقینی ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرانے کی تما کوششیں ناکام بنا دی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک سماعت میں بقول چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہو چکے ہیں۔نگران حکومت نے بھی عام انتخابات کرانے کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے اس سلسلے میں نگران وزیراطلاعات ونشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہاکہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے اور کسی قسم کا کوئی بحران نہیں۔ لوگ افواہوں پر دھیان نہ دیں۔ الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے اور کسی قسم کا کوئی بحران نہیں ہے۔ انتخابی ماحول میں الزامات معمول کی بات ہے۔ قوم سیاسی جماعتوں کے دعوﺅں کا فیصلہ انتخابات میں ووٹوں کے ذریعے کرے گی۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے انتظامات کے مراحل سرعت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا رہا ہے جس کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کاعمل مکمل ہونے کے بعد آٹھ فروری دوہزارچوبیس کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوںگے۔ اس کےلئے ادارہ جاتی سطح پر جس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ انتخابات کے التواءکی ہر سازش ناکام بنا رہی ہے اس کی بنیاد پر آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ اب سیاسی جماعتوںپر منحصر ہے کہ وہ اس عمل میں بھرپور حصہ لینے کےلئے اپنی اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم پر کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں۔سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ ریاستی انتظامی ادارے پُرعزم ہیں تو تمام سیاسی قیادتوں کو بھی جمہوریت کے تسلسل پر یقین رکھنا اور آٹھ فروری کے انتخابات کو پتھر پر لکیر سمجھنا چاہئے۔بلاشبہ ملک میں سیاسی اورمعاشی استحکام کے لئے عام انتخابات کاانعقاد ناگزیر ہے ورنہ ہم روز بروز نئے بحرانوں میں پھنستے رہیں گے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے وقت کاتعین آئین میں موجود ہے یہ بھی واضح ہے کہ جب ایک حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلیتی ہے تونوے روز کے اندر انتخابات کرانالازمی ہوتے ہیں مگریہاں بدقسمتی سے عام انتخابات کے التواءکے لئے مختلف بہانے تلاش کئے جارہے ہیں جس کاہمارا ملک ہرگزمتحمل نہیںہوسکتا۔ لہٰذا کسی بھی عہدیدارکے استعفے ، دہشت گردی اورسردموسم کابہانہ بناکر عام انتخابات کوملتوی نہ کیاجائے کیونکہ یہ ایک آئینی تقاضاہے۔
اسرائیل حماس تنازعہ،خطے میں جنگ کے خدشات
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے نتیجے میں اس کے اثرات پورے خطے میں پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ لبنانی تنظیم حزب اللہ نے ہفتے کو ایک اہم اسرائیلی فوجی اڈے پر باسٹھ راکٹوں سے حملہ کر دیا۔ حملے کو حماس کے نائب سربراہ کے قتل کا ابتدائی ردعمل قرار دیا گیا ہے۔ اس عمل نے امریکا اور اس کے حمایت یافتہ ملک اسرائیل کے اُن ملکوں کے ساتھ اختلافات شدید ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے جنہیں مغربی میڈیا ”اسرائیل مخالف اتحاد”اور مزاحمت کا محور قرار دیتا ہے۔ ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بھی تنازع خطے کے دیگر ملکوں میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر ترکی کا دورہ کیا جو تین ماہ کے دوران ان کا خطے کا چوتھا دورہ ہے۔ غزہ کے باہر بشمول لبنان، شمالی اسرائیل، بحیرہ احمر اور عراق میں ہونے والی پریشان کن تبدیلیوں اور واقعات نے موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کیونکہ ان علاقوں میں پیش آنے والے واقعات نے اُن کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے جن کی وجہ سے امریکا اب تک اس تنازع کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے ہفتے کو ترک صدر رجب طیب اردوان اور وزیر خارجہ ہاکان فیدان سے ملاقات کی تاکہ اس بات پر غور کیا جا سکے کہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے اور بالخصوص ایران اور اس کے پراکسیز کو باز رکھنے، غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو تیز کرنے اور سنجیدگی سے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ترکیہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ اتوار کو وہ اردن کے دارالحکومت پہنچے جس کے بعد وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے۔ منگل کو وہ اسرائیل پہنچیں گے اور پھر وہاں سے مصر میں اپنا دورہ ختم کرکے واشنگٹن روانہ ہوں گے۔ یورپی یونین کے سینئر عہدیدار جوزف بوریل نے بھی خطے کا دورہ کیا۔ امریکی و یورپی عہدیدار کے علیحدہ علیحدہ دورے کا مقصد صرف لبنان میں کشیدگی کو کم کرنا ہی نہیں بلکہ بحیرہ احمر کی اہم شپنگ لین کے ساتھ مزید واقعات کو روکنا ہے۔ تاہم، کچھ ماہرین نے دونوں شخصیات کے دوروں کے موثر ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ امریکا کی غیر متوازن پالیسیوں کی وجہ سے اس کی قیام امن کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ اسرائیل لبنان کی طرف سے اس کارروائی کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اعلان کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی وقت لبنان میں بڑا فوجی آپریشن شروع کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کو تشویش ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نینتن یاہو حماس کے حملے روکنے میں اپنی حکومت کی ناکامی پر تنقید کے بعد اب لبنان میں فوجی آپریشن کو اپنی سیاسی بقاءسمجھ رہے ہیں۔ چائنیز میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا جہاں ایک طرف سفارتی کوششیں کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف وہ یمن، عراق اور شام میں فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر رہا ہے جس سے امریکا کی منافقت سے بھری سوچ واضح ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلنکن کے متعدد دوروں کے باوجود مشرق وسطیٰ کے ریجن کیلئے کیے جانے والے اقدامات آگ بجھانے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں حزب اللہ کیساتھ جنگ نہ بڑھائے ۔ادھر واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی ڈی آئی اے کی طرف سے ایک نئی درجہ بندی کی گئی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع کی صورت میں صیہونی حکومت کیلئے حالات بہت مشکل ہو جائیں گے کیونکہ اس کے اثاثے اور فوجی وسائل غزہ جنگ کی وجہ سے کم ہو جائینگے۔ اس انٹیلی جنس جائزے سے واقف دو ذرائع نے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان تصادم کے امکان کے بارے میں امریکی حکام کی بڑھتی ہوئی تشویش کی اطلاع دی ہے لیکن امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے ترجمان نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ غزہ میں تنازعات کے درمیان اسرائیل کیلئے حزب اللہ کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے صیہونی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان مکمل جنگ کو روکنے کے اہم مقصد کیساتھ اپنے اعلی مشیروں کو مشرق وسطیٰ روانہ کیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri