کالم

شنگھائی تعاون تنظیم: خطے کے امکانات اور پاکستان کا کردار

چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا حالیہ اجلاس بلاشبہ خطے کی سیاست اور معیشت میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ اس اجلاس نے یہ واضح کیا کہ ایشیا کے ممالک اب محض عالمی طاقتوں کے فیصلوں کے انتظار میں نہیں بیٹھے بلکہ اپنے مسائل کے حل اور مستقبل کے راستے خود متعین کرنے پر آمادہ ہیں۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے ایس سی او کو امن، ترقی اور باہمی احترام کا پلیٹ فارم قرار دیا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے زور دیا کہ خطے کی ترقی مشترکہ تعاون سے ممکن ہے اور یہ کہ ایس سی او ممالک کے باہمی اتحاد سے ایک نیا عالمی معاشی نقشہ ابھر رہا ہے۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں دہشتگر دی کو علاقائی تعاون میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔پاکستان کی نمائندگی وزیرِاعظم شہباز شریف نے کی۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری صرف پاکستان اور چین کا منصوبہ نہیں بلکہ یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے بھی سب سے اہم تجارتی و توانائی کا پل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے خطے کو ملانے والی قدرتی راہداری ہے، اور اگر سی پیک کو ایس سی او کے دیگر منصوبوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو پاکستان پورے خطے کی معیشت کیلئے شہ رگ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے اس اجلاس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے عالمی برادری کو یقین دلایا کہ پاکستان معاشی اصلاحات، سرمایہ کاری اور خطے میں تعاون کیلئے پرعزم ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ معاشی دباؤ اور سیاسی غیر یقینی صورتحال نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو محتاط بنا دیا ہے۔ اگر اعتماد بحال نہ کیا گیا تو خطے میں تعاون کے مواقع ہونے کے باوجود پاکستان ان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پائے گا ۔ اجلاس میں علاقائی سلامتی کے معاملات اور افغانستان کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا،جو پاکستان سمیت تمام رکن ممالک کیلئے اہم ہیں۔ پالیسیوں میں تسلسل اور علاقائی ہم آہنگی کے بغیر پاکستان کیلئے SCO جیسے فورمز پر نمایاں کردار ادا کرنا مشکل ہوگا۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان اپنی گھریلو پالیسیوں کو مضبوط کرے تاکہ خطے میں بدلتے منظرنامے میں اپنا حقیقی مقام حاصل کر سکے،اجلاس میں ایرانی صدر مسعود پیزیشکین، قازقستان کے صدر قاسم جومرت ٹوکائیف، ازبکستان کے صدر شعوقت میرزیائیف، کرغزستان کے صدر سادیر جاپاروف، تاجکستان کے صدر امامعلی رحمان، بیلاروس کے صدر الیگزاندر لوکاشینکو، آذربائیجان کے صدر الہم علیی یوف اور آرمینیا کے وزیرِاعظم نیکول پاشینیان بھی شریک ہوئے اسکے علاوہ ترک صدر رجب طیب اردگان، ملائیشیا کے وزیرِاعظم انوار ابراہیم، نیپال کے وزیرِاعظم کے پی شرما اولی اور مالدیپ کے صدر محمد مویزّو نے بھی اجلاس میں اپنی موجودگی سے خطے کی وسعت اور کثیرالجہتی کردار کو نمایاں کیا۔
اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں دہشت گردی کے خاتمے، علاقائی سلامتی کے فروغ، تجارتی راہداریوں کی آسانی، توانائی منصوبوں میں تعاون، ڈیجیٹل معیشت کے فروغ اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس اور ایس سی او کے سیکریٹری جنرل نورلان یرملکبایف کی موجودگی نے اجلاس کی عالمی اہمیت کو مزید بڑھا دیا۔پاکستانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایس سی او کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم پاکستان کو وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان، قازقستان اور کرغزستان کی توانائی سے بھرپور ریاستیں پاکستان کیلئے مستقبل کے توانائی شراکت دار بن سکتی ہیں۔ اگر پاکستان اپنے بندرگاہی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرے اور سی پیک کو ان ریاستوں کی معیشت کیساتھ جوڑ دے تو گوادر پورے خطے کی تجارتی نبض بن سکتا ہے۔اس اجلاس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ آنیوالا دور صرف روایتی طاقت کے مظاہرے کا نہیں بلکہ معیشت اور توانائی کا ہے۔ جو ملک علاقائی تعاون کو فروغ دے گا وہ ترقی کرے گا، اورجو صرف نعرے لگانے پر اکتفا کرے گا وہ پیچھے رہ جائے گا۔ پاکستان کیلئے یہی وقت ہے کہ وہ اپنی خارجہ اور اقتصادی پالیسی کو حقیقت پسندانہ رخ دے، اور شنگھائی تعاون تنظیم کو محض تقریروں کا پلیٹ فارم بنانے کے بجائے عملی منصوبوں کا ذریعہ بنائے۔ تیانجن اجلاس کے اثرات دور رس ثابت ہوں گے۔ اگر پاکستان اپنی داخلی سیاسی کشمکش سے نکل کر خطے کی اقتصادی دوڑ میں شامل ہوا تو آنے والے برسوں میں یہ ملک نہ صرف خطے کی سیاست بلکہ معیشت کا بھی مرکز بن سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے