کالم

شہر کراچی کے شب و روز

پاکستان میں تیزی سے وقوع پذیر ہوتے واقعات اور آئے روز کے انقلابات موضوع کا انتخاب ایسا پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ قلم کسی اور طرف چلنا چاہتا ہے تو سوچوں کا دھارا کہیں اوربہہ رہا ہوتا ہے۔حالات حاضرہ اور بڑے سیاسی نام اتنی تیزی سے رنگ اور بیان بدلتے ہیں کہ ساون بھول جاتا ہے اور موضوع بھی۔اب سفر کی یادیں محو ہونے کے ڈر سے بزور بازو سفر کراچی کی روداد مکمل کرنے کی ٹھانی. بیگ تھامے باہر نکلے تو متلاشی نگاہوں نے تلاش کی زحمت ہی نہ دی. فرط جذبات میں وارفتگی، گرم جوشی اور بے ساختہ پن. انہیں الفاظ کا جامع پہنانا کالم کی ضرورت وگرنہ ایسے جذبات و احساسات الفاظ کے محتاج نہیں ہوتے. سامان گاڑیوں میں رکھا تو اندازہ ہوا کہ خواتین کے ساتھ سفر میں کتنی دشواریاں ہیں اور اگر سفر کا دورانیہ چھ سات یوم کا ہو تو پھر آپ خود ہی اندازا لگا سکتے ہیں. ویسے کہاوت ہے کہ گھروں میں خواتین کو ملبوسات رکھنے کی جگہ ملتی اور پہننے کو ملبوسات نہیں ملتے۔مگر اس پر بحث یا نصیحت اپنے آپ کو تھکانے کے سوا کچھ نہیں۔عصر کی نماز ریسٹ ہاوس واقع کلفٹن پہنچ کر ادا کی ۔ میزبانوں کا حکم تھا کہ وہ مزید انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے بھی کہ وہ تو سہ پہر سے کھانے پر منتظر، ویسے بھی انتظار مشکل ہی ہوتا ہے کھانے کا ہو یا ملنے کا. رات گئے تک شادی والے گھر میں ہنگامہ آرائی رہی. دعوت ولیمہ کا اہتمام سمندر کے کنارے تھا. ہوٹل کے ہال میں پہنچتے ہی احساس ہو گیا کہ میزبان حسن ضیاءنے بیٹے کی تقریب ولیمہ کا اہتمام کتنا شاندار کر رکھا ہے اور پھر ادبی، ثقافتی، کاروباری اور صحافتی ستاروں کے جھرمٹ نے تقریب کو چار چاند لگا دئیے. چونکہ اس محاورے میں چاند ہیں ہی چار، وگرنہ کھانے کا پرتکلف اہتتمام تو چاند زیادہ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔کراچی میں تقریب ولیمہ ہو یا آمد بارات.اہلیان لاہور اور اسلام آباد والوں کو تقریب کے اختتام کا سوچ کر ہلکان نہیں ہونا چاہیے۔روشنیوں کے شہر میں رات گئے تک روشنیاں نہ جلیں تو مزہ نہیں۔عمومی طور پر ایسی تقریبات سے رات 01کے لگ بھگ ہی رخصت ملتی ہے مگر معروف و مشہور شخصیات تقریب کی رونق ہوں تو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔حسن ضیا نے کامیابیوں کا سفر طے کرنے میں 30 سال صرف کئے مگر یہ خصوصیت کراچی ہی میں ہے جو اس شہر میں اجنبیوں کو چند سالوں میں مقبولیت کی معراج عطا کرتا ہے۔چائے کی میز پر بیٹھے حسن ضیا نے اپنی success سٹوری سناتے ہوئے بتایا کہ 30 سال قبل محض چند سو روپے کا زاد راہ تھا اور ایوب خاور کا مشفقانہ ساتھ. سن 2000میں ماسٹر مائنڈ کے نام سے کمپنی رجسٹرڈ کرائی تو کراچی کے معروف بزنس مین ریحان مرچنٹ نے ہاتھ تھاما۔کافی کی چسکیاں لگاتے ماضی کے دریچوں میں کھوئے حسن ضیا نے کٹھن اور ابتدائی دنوں کے ذکر میں معروف آرٹسٹ نبیل کا نام بھی خصوصی طور پر لیااور پہلا بڑا کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے پر Ariel کا ذکر شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ کرتے ہوئے اسی ردھم میں ان کامیابیوں کو اپنے والد گرامی کی دعاں کے کھاتے میں ڈال دیا۔انکا کہنا تھا کہ کراچی اور اہل کراچی نے جتنی محبت دی اور اس مقام تک پہنچانے میں ان کا جو کردار رہا وہ ناقابل فراموش گا کہ آج بڑے بڑے نام ہمارے ساتھ جڑے ہیں مگر ابتدائی ایام کے دوستوں کو آج تک بھلایا اور نہ انہیں بھلایا جا سکتا ہے۔میزبان کا شاید یہی وصف انہیں ترقی اور عظمت کی معراج پر قائم رکھے ہوئے ہے. شادی کا ہنگامہ ختم ہوا تو کراچی کی سیر کا مرحلہ سر پہ تھا۔اس سلسلہ میں احمد کے ساتھ امان کی مہارت نے رنگ دکھایا۔د ذائقوں کی حامل کونسی جگہ جو احمد حسن سے پوشیدہ ہو سکتی تھی سو جتنے دن رہے رات گئے تک ذائقوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔گھر میں شیف یاسر تنولی کے ہاتھوں کی لذت اور برادرم حسن ضیا کی مہمان نوازی کا رنگ کھانے کی میز پہ خوب نکھر کر سامنے آتا۔انسانوں کے سمندر کراچی تین حصوں میں منقسم، کچی آبادیاں، پوش علاقہ جات میں زندگی کا رنگ، جبکہ گنجان آبادی والے علاقوں اورنگی، ملیر، گورنگی، ناظم آباد، سراب گوٹھ، لیاری اور دیگر علاقہ جات میں ہر سو افراتفری، تیز رفتار زندگی، سڑکوں کی خستہ حالی تو کہیں سڑک بند، شہر کا یہ رنگ بھی دیکھنا کہاں نصیب ہوتا اگر بردارم ذوالفقار جرال کا ساتھ میسر نہ ہوتا۔ان کے والد گرامی 80کی دہائی میں روزگار کی تلاش میں کراچی آئے اور اب تیسری نسل یہاں آباد، نہ صرف کاروباری لحاظ سے ترقی کی بلکہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ذوالفقار جرال ہوں یا مرزا ظفر جرال کراچی کا کوئی کونہ ان سے پوشیدہ نہیں. جیسے وہیل مچھلی سمندر کی گہرائیوں کو جانتی ہے اسی طرح جرال برادران انسانوں کے سمندر کے طول و عرض سے واقف۔ان کے ہاں بھی نہ صرف مہمان نوازی کا خوب لطف اٹھایا. کراچی قیام کا آخری روز خریداری امور کی انجام دہی میں گزرا. ایک ہفتے کا مختصر و طویل قیام، مختصر اس لیے کہ کراچی جیسے شہر کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کےلئے چھ روز مختصر ہی نہیں مختصر ترین اور طویل اس لیے کہ کاروبار سے رخصت کا ایک ایک دن طویل۔محبت، خلوص اور احترام کی خوبصورت یادوں کی مالا پہنے رخصت ہوئے مگر دل کئی روز تک وہیں اٹکے رہے ۔ لاہور پاکستان کا دل ہے تو کراچی ریڑھ کی ہڈی۔دعا ہے کہ دونوں سلامت رہیں کہ انہی سے پاکستان شاد اور معیشت آباد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے