کالم

صدر کے خطاب پر اظہار رائے

صدر کے خطاب پر اظہار رائے

تحریر !ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

قومی اسمبلی کی یہ روایت ہے کہ پارلیمنٹ میں صدر مملکت کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بعد ہر سیاسی جماعت کے ممبر پارلیمنٹ کو صدر مملکت کی تقریر پر اظہار رائے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ صدر کے خطاب پر اپنا اور پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرے۔ مجھے بھی ایوان میں صدر مملکت کے خطاب پر اظہار رائے کا موقع ملا جو آج میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوںگا۔صدر مملکت آصف علی زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 2024 ءکے الیکشن میں صدر مملکت کیلئے حکومتی اتحاد مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی کے متفقہ امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہوئے جبکہ اپوزیشن جماعت سنی اتحاد کونسل نے محمود خان اچکزئی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ آصف زرداری پاکستان کی تاریخ کے پہلے سویلین صدر ہیں جو 411 الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے دوسری مرتبہ صدر مملکت کے عہدے کیلئے منتخب ہوئے جبکہ ان کے مخالف امیدوار محمود خان اچکزئی نے 181 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے۔ آصف علی زرداری ملکی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انہوں نے وفاق کے استحکام کیلئے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ 2008 کے الیکشن کے بعد جب وہ پہلی بار صدر مملکت بنے تو انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کے صدارتی اختیار 58(2)B سمیت کئی متنازع ترامیم ختم کرکے آئین کو 1973 کی اصل شکل میں بحال کیا۔ بلوچستان کے عوام سے ان کی محرومیوں پر باقاعدگی معافی مانگی، صوبائی خود مختاری کو 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عملی جامہ پہنایا، NFC ایوارڈ میں صوبوں کے مالیاتی شیئرز میں اضافہ کرکے انہیں مضبوط کیا، صوبہ سرحد کا نام KPK تبدیل کرکے پشتونوں کو شناخت دی، پاک ایران گیس پائپ لائن کی بنیاد رکھی، سی پیک کے تاریخی منصوبے کی ابتدا کی، 2018ءمیں پی ٹی آئی کے مخالفین کو PDM کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جس نے اپریل 2022ء میں ملکی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا۔

پہلے پارلیمانی سال کے آغاز پر 18اپریل کو صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری اور میرے علاوہ دیگر اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے ناطے موجود تھے جبکہ اجلاس کے دوران مختلف ممالک کے سفیر بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔ ہماری پارلیمانی سیاست کی یہ تاریخ رہی ہے کہ مشترکہ اجلاس سے صدور کا خطاب دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق پاکستان کے وہ واحد صدر تھے جن کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران سیاسی مخالفین بھی جرنیلی طاقت کی وجہ سے سعادت مندی سے خطاب سنتے رہے لیکن دوسرے جرنیلی صدر پرویز مشرف کا اپوزیشن نے ’’گو مشرف گو‘‘ کے نعروں سے استقبال کیا۔ مشترکہ اجلاس کی یہی روایت صدر آصف زرداری کے خطاب کے دوران بھی دیکھنے میں آئی اور پی ٹی آئی نے شور شرابے اور احتجاجی نعروں سے صدر مملکت کے خطاب میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن صدر مملکت نے نہایت پراعتماد انداز میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی۔صدر مملکت کے پارلیمنٹ میں مشترکہ اجلاس سے خطاب پر اظہار رائے دیتے ہوئے میں نے اپنی تقریر میں ایوان کو بتایا کہ میں کراچی کی نمائندگی کے ساتھ پاکستان کی بزنس کمیونٹی، FPCCI کی نمائندگی بھی ایوان میں کررہا ہوں۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور مجھے خوشی ہے کہ صدر پاکستان کی مشترکہ اجلا س سے آدھی سے زیادہ تقریر ملکی معیشت کی بحالی پر تھی۔ انہوں نے خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کی بات کی۔ پاکستان میں بزنس کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا، ملک میں سیاسی استحکام اور بزنس دوست فضا پیدا کرنے کا ذکر کیا۔ انہوں نے خصوصی سرمایہ کاری کونسل (SIFC) کو مثبت سمت میں قدم قرار دیتے ہوئے ملکی ایکسپورٹس میں تنوع اور مقابلاتی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر پاکستا ن، جو زراعت کے شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں، نے معیشت کی بحالی کیلئے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیکسٹائل سیکٹرز کے پوٹینشل کو اجاگر کیا جن میں اصلاحات کرکے ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت نے مشترکہ اجلاس میں پاکستان کے مستقبل کو ماحولیاتی تبدیلی، متبادل توانائی اور گرین معاشی گروتھ سے منسلک کیا۔ صدر کی تقریر میں مجھے گڈ گورننس، بہتر حکمرانی اور اصلاحات کی ضرورت پر زور نے متاثر کیا جسے اپناکر ہم پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ تقریر کے آخر میں صدر آصف علی زرداری نے دوبارہ مفاہمت، بہتر خارجہ پالیسی اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے پر زور دیا۔ آج میں پھر تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی انا سے نکل کر ملک میں معیشت کی بحالی کیلئے ’’میثاق معیشت‘‘ کریں۔ میری صدر پاکستان، جو مفاہمت کے گرو مانے جاتے ہیں، سے درخواست ہے کہ وہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک میں موجودہ سیاسی انتشار اور اداروں میں تصادم کو روکا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri