کالم

طوفان بدتمیزی

a r tariq

ایک پردیسی نوجوان جس کا نام محبوب تھا ،حصو ل روزگار کی تلاش میں ملتان سے کوٹ رادھاکشن آیا تھا ،ان دنوں شہر میں تلاش روزگارکے سلسلے میں بھٹکا ماراپھر رہا تھا ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میری شہر میں کپڑے کی دُکان ہواکرتی تھی۔ا یک روز اس کی ملاقا ت دُکان پر میرے چھوٹے بھائی عمران سے ہوئی ، حال احوال پوچھا تو اصل مدعا کی طرف آگیا کہ موٹر سائیکل مکینک ہوں ،روزی روٹی کے حصول کی خاطر یہاں آیا ہوں ،دُکان دیکھ رہا ہوں جہاں پر اپنا دھندہ شروع کر سکوں۔ رہائش کا پوچھا تو بتایا کہ جہاں جگہ ملتی ہے رہ لیتا ہوں تو بھائی نے اُسے کرائے پرایک گھر لے کر دے دیااور اس کا روزگار کا مسئلہ یعنی دُکان بھی اسے لے کر دے دی ۔وہ سارا دن دُکان پر موٹر سائیکل مرمت کرتا او رشام کے اوقات میں ریلوے اسٹیشن پر گری ،پستہ ، بادام سے مزین خالص دودھ کی بوتلوں کی ریڑھی بھی لگاتا ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کوٹ رادھاکشن میں نئے نئے پارک بنے تھے،مرد اور خواتین، بچوں اور بوڑھوں کا رش لگا رہتا تھا ،یوں اُس کی چاندی ہوگئی وہ ہر وقت پیسو ں میں کھیلتا اور بڑا خوش دکھائی دیتا ۔اس موقع پر میرا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتا تھا جو اب میں ،میں اُسے کہتا کہ شکریہ کس بات کا بھائی یہ تو سب اوپر والے کی مہربانی ہے ،جسے دیتا ہے چھپر پھاڑ کردیتا ہے،اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ۔انہی دنوں کوٹ رادھاکشن میں سپورٹس میلہ لگا ہوا تھا ،اس تفریحی سپورٹس میلے میں کرکٹ ،ہاکی ، فٹبال اور والی بال کے مقابلے بھی ہوئے اور چائنہ سرکس والے بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ اس سپورٹس میلے کی خاص بات معروف سنگر عارف لوہار کا خصوصی کنسرٹ تھا جس میں لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی ۔اس سپورٹس میلے میں ملک کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی ،وزراءاو رمشیر بھی آئے ۔ایک دن میں اپنے پردیسی دوست محبوب جو کہ روزانہ اس میلے میں پارک کے ساتھ دودھ کی بوتلوں کی ریڑھی لگاتا تھا کے پاس گیا سلام دعا کے بعد اس نے پوچھا یار تم میرے پاس روزانہ کیوں نہیں آتے ،میں نے کہا کہ یار عورتوں کا رش لگا رہتا ہے اس وجہ سے مناسب خیال نہیں کرتا،کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا کہ طارق کیا کررہا ہے تو اُس نے مجھے جواباًکہا کہ جو تمہیں یہ کہے گا وہ خود یہاں کیا کررہا ہوگا۔ میں اسے اسکی بات اور حاضر دماغی پر داد دئیے بغیر نہ رہ سکا ۔اس کی سار ی بوتلیں بِک چکی تھیں اُس نے مجھے اپنے ہمرا ہ میلے پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا جہاں سپورٹس گراﺅنڈکے ساتھ ہی چائنہ سرکس والے اپنے الاﺅ لشکر کے ساتھ جلوہ گر تھے ۔اس نے مجھے ڈانس کا پروگرام بھی دکھانے کی آفر کی اور کہا کہ تمہاری ٹکٹ میں لوں گا ،یاد رہے کہ ٹکٹ کی قیمت پچاس روپے تھے میں نے اسے انکار کردیا اور نکارکی وجہ سے یہ بتائی کہ میں سینماﺅں ،تھیڑوں میں کبھی نہیں گیا او رنہ ہی میں ایسے بے ہودہ پروگرام دیکھتاہوں ۔اُس نے مجھے بہیتراکہا مگر میں نہ مانا ،میں نے اسے کہا کہ تم جا سکتے ہو میں اتنی دیر ادھر اُدھر ٹہلتا ہوں تو اس نے کہا پھر میں بھی نہیں جاﺅں گا ،چلو جلیبیاں کھاتے ہیں ،ہم جلیبیاں لے رہے تھے کہ میری نظر میلے میں دو مولوی صاحبان پر پڑی جن کے سرپر عربی رومال تھے ،ٹکٹ لیا او رمنہ چھپائے ڈانس ہال میں داخل ہوگئے ،میں فورا ً بھاگا لیکن اتنی دیر تک قنات والا دروازہ بند ہو چکا تھا میں نے قنات کی جیت میں جھانک کر کیا دیکھا کہ اندر کیمپ میں نیم برہنہ لباس میں ہجڑے او رعورتیں ناچ رہے تھے اور ساتھ ہی ڈیک پر اخلاق باختہ ،اخلاق سوز گیت لگے ہوئے تھے اور وہ نوجوان مولوی صاحبان بھی جا کر دوسری تیسری لائن میں بیٹھ گئے ،میرے دوست نے مجھے یوں ڈانسنگ کیمپ کی طرف بھاگ کر جانے کی وجوہات جاننا چاہی تو میں نے اسے ساری بات بتا دی تو اس نے بھی لوہے کو گرم ہوتے دیکھ کر یعنی موقع غنیمت جان کو مجھے کہا کہ مولو ی چلے گئے،ہم بھی چلتے ہیں مگر میں نے انکار کردیا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے لیکن یہ پروگرام ختم ہونے پر ان مولویوں سے مل کر ہی جائیں گے جیسے ہی پروگرام ختم ہوا مولوی صاحبان منہ ڈھانپے باہر آئے تو میں نے انہیں پہچانتے ہوئے کہا ہیلوحضرت کیا حال ہے تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ سنا ﺅ تو میں نے کہا الحمد للہ ٹھیک ہے اللہ کا شکر ہے مولوی صاحبان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طارق آپ یہاں کیسے ؟ تو میں نے بات بناتے ہوئے جواباً کہا جیسے آپ ادھر ہو ویسے میں ادھر ہوں ۔وہ ہڑبڑا کر پوچھتے ہیں اس سے آپ کا کیا مطلب ہے تو میں نے انہیں بتایا جس کام کیلئے آپ آئے تو اسی کیلئے میں بھی آیا ہوں وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں تو میں نے کہا بات اتنی سی ہے جو کام آپ نے پچاس روپے کی ٹکٹ لے کر کیا وہی کام میں نے بغیر ٹکٹ لئے سرانجام دے دیا۔آپ نے سارا نظارا سربچشم اندر جا کر ملاحظہ فرمایا جبکہ ہم نے یہ طوفان بدتمیزی و اخلاق باختہ پروگرام باہر سے جھانک کر جانچ لیا ۔مولوی صاحبان بجائے اپنی غلطی تسلیم کرتے کہ بے حیائی و بے شرمی و بے راہ روی جیسے بے ہودہ پروگرام میں شرکت کرکے آئے تھے ندامت او رشرمندگی محسوس کرتے ہوئے اللہ کے حضور معافی کے درخواست گزار ہوتے انتہائی ڈھٹائی او ربے شرمی کے ساتھ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ دراصل بات یہ تھی کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ ریلوے اسٹیشن کوٹ رادھاکشن واقع پارکوں میں سپورٹس میلہ لگا ہوا ہے جہاں پرچائنہ سرکس والے بھی آئے ہوئے ہیں وہاں پر ناچ گانے اور ڈانس کے پروگرام ہو رہے ہیں ہم حقیقت جاننے کیلئے آئے تھے آج جمعرات ہے کل جمعہ ہے تاکہ عوام کو اس بے حیائی پروگرام کے بارے میں اپنی تقریر میں بتاسکیں ۔یہ سب کچھ بتانے کے بعد وہ مجھ سے گویا ہوئے طارق آپ میلے میں کیا لینے آئے ہیں تو میں نے انہیں بتایا کہ جیسا کہ آپ کو لوگوں نے اس اخلاق باختہ بے حیائی سے مزین پروگرام بارے بتایا اسی طرح اہلیان علاقہ کا مجھ سے اصرار تھا کہ آپ بہت سارے موضوعات پر لکھتے ہیں اس حیا باختہ ،بے ہودہ ،اخلاق و غیرت سے عاری پروگرام پر بھی کچھ لکھیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ آپ نے اس پروگرام کو سربچشم خود اور پچاس روپے کی ٹکٹ لے کردیکھا اور جانا جبکہ میں نے یہ پروگرام بغیر دیکھے بغیر ٹکٹ لئے ہی جان لیا ۔میں نے ماحول میں خوشگوار تبدیلی لانے کیلئے ازراہ مذاق کہا کہ چھوڑوجی سب باتیں ” ایک مولوی اور ایک صحافی میں صرف اتنافرق ہے کہ ایک مولوی بے حیائی دیکھ لیتا ہے ایک تقریر کی خاطر جبکہ ایک صحافی بے حیائی دیکھ لیتا ہے ایک تحریر کی خاطر“ پتا سٹو ، سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri