کالم

ظلم کے اندھیرے مٹا نے کا ابدی پیغام

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی عملی تصویر ہے اس میں نہ صرف معاشی ،سماجی انصاف،معاشرتی نظام، حقوق و فرائض سفارتکاری سمیت زندگی کے تمام پہلوو¿ں کا حل موجود ہے بلکہ حضرت محمدﷺ کی انفرادی اجتماعی اور گھریلو زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی نہ لی جا سکے۔ آپﷺ نے انسان کو غلامی سے نجات دلائی عدل وانصاف سے دلوں پر حکمرانی کی ،اپنے کردار وعمل سے دشمن کو اپنا گرویدہ بنا لیا ،ا ہل مکہ نے جس طرح آنحضور ﷺ پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑے ہجرت پر مجبور کیا اور سالوں جنگ کرتے رہے لیکن فتح مکہ کے بعد جب آپﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو سر رب العزت کے آگے جھکا ہوا تھا۔ آپﷺ نے در گزر کیا ،نجی زندگی ہو یا تجارتی معاملات ہر جگہ آپﷺ کا کردار ایک جیسا ہے،ریاستی قوانین سے لے کر انفرادی معاملات تک احکام پر عمل کر کے امت کوعملی نمونہ پیش کیا۔ آپ ﷺ تمام فیصلے وحی خدا اور پیغمبرانہ بصیرت سے کرتے اسلئے وہ علم انسانی، بصیرت سے بے انتہا بہتر ہوتے۔ ہجرت کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو معاشی طور پر لوگ دو حصوں میں تقسیم تھے کچھ مالدار اور کچھ متوسط ان حالات میں محسن انسانیت نے سود کا خاتمہ کیا اور فرمایا کہ تم سب بھائی بھائی ہو ۔ایک دوسرے کے کام آو¿ ۔انصار کو قرضہ حسنہ دینے کی ہدایت کی ،حضورﷺ کے فضائل کا احاطہ ممکن نہیں مگر آپ ﷺ کی ذات اقدس سے ظاہر ہونے والے روحانی معجزات و کمالات کا مقصد دلوں میں ان کی عظمت وتکریم کا نقش ثبت کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات واطوار اور افعال واعمال سے آپﷺ کے اسوہ¿ حسنہ کے مطالعہ کا موقع ملتا ہے اور اسکی روشنی میں انسان اپنے عمل کی اصلاح کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔ سیرت کا یہ پہلو اطاعت کی ترغیب دیتا ہے۔سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن مجید ہی معیار ہے اس امرمیں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآنی احکام وتعلیمات نبویﷺ اور اخلاق وکردار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا سب سے عظیم منبع ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ©:ترجمہ: مومنو!بے شک تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے( الاحزاب 21:33)
و ما ارسلنک اِلا رحمة لِلعلمِین :اور(اے رسول)ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔(الابنیا107..21)
و اِنک لعلی خلق عظِیم :یقینا آپ کا خلق عظیم ہے
القلم 4:6۔
حقیقت یہ ہے تمام معاشی نظام الگ الگ متضاد نام کے حامل ہونے کے باوجود سارے ایک ہیں اور ان کا بنیادی فلسفہ ایک ہے۔ سب نظام روٹی کی بات کرتے ہیں اور یوں انسان نے معیشت کو ترجیح دے کرخود کو بھلا دیا ہے اور خالق کائنات کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ہر مسئلہ کا حل خود تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔قرآن مجید کایہ اعلان ہے کہ دنیا کی ہر چیز زمین جائیداد سونا سب کا مالک رب العزت ہے۔للہ ما فی السموات، فی الارض“۔ہاں وہ اپنی ملکیت اپنے بندوں کو نفع کمانے کے لئے اس شرط پر دیتا ہے کہ وہ اس کے استعمال میں اللہ کے پابند رہیں ۔اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمھیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت بنانے کی کوشش کرو ،دنیا میں بھی اپنے حصے کو نظر انداز نہ کرواور جس طرح تم پر اللہ نے احسان کیا تم بھی دوسروں پر احسان کرو اور زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرو تاہم اسلامی معاشی نظام میں تجارت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور کہا گیاہے زیادہ رزق تجارت میں ہے اور ”زر“یعنی کرنسی حقیقی دولت پر مبنی جنس سونا گندم چاول وغیرہ ہو تا ہے اور یہ سب سود و ہر قسم کے ٹیکس سے پاک ہوناچاہئے اور انسان کو رویوںمیں آخرت کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کر دئیے گئے ہیں ۔ اسلام میں دولت کی تقسیم اور ایک متوازن معاشی نظام کےلئے ضروری ہے کہ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کر کے اس سے راہنمائی حاصل کی جائے اور اس پر عمل کر کے جامعہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی مرتب کی جائے تاہم موجودہ معاشی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے معاشرے میں عدل وانصاف بھی لازمی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri