کالم

عالمی ماہرین کی بڑے ڈیموں کے بارے میں رائے

ijaz ahmad
حال ہی میں عمران خان اور گجرات کی چو دھریوں کی ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات میں مہنگائی ، لاقانونیت ، بے روزگاری اور عوامی مسائل پر بات ہونی چاہئے مگر بد قسمتی سے اس ملاقات موضوع سخن متنازعہ کالا با غ ڈیم تھا ۔ حکومت اور خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ ممبران نے اس پر بحث روک دی کیونکہ زیادہ تر پی ٹی آئی رہنماءوں کا خیال تھا کہ اس وقت اگر کالاباغ ڈیم کو ہم موضوع سخن بنائیں گے تو بلدیاتی الیکشن میں ہ میں مشکل پیش آسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر پی ٹی آئی لیڈران نے بحث مصلحتاً چھوڑ دی ۔ اگر ہم ڈیموں پر بات کریں تودنیا میں اس وقت 8لاکھ ڈیمز ہیں جس میں 45ہزار ڈیمز بڑے ہیں ۔ عام طو پر بڑے ڈیم کی او نچائی 50 فٹ شروع ہو تی ہے ۔ ان ڈیموں کی متوقع زندگی بیس سے چالیس سال تک ہو تی ہے ۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے سے لیکر ساتھویں عشرے تک یعنی 1930سے1970تک ان 40سالوں میں اونچے ڈیموں کی ٹیکنالوجی بامِ عروج پر تھی ۔ اِس عرصے میں پوری دُنیا میں سینکڑوں ڈیم بنائے گئے ۔ مصر کا اسواں ڈیم اور پاکستان کا تربیلا اور منگلا ڈیم اس دور کی یادگار ہیں ۔ سائنسدانوں کی تحقیق بڑے ڈیموں کے فوائد اور نقصانات پر جاری رہی ۔ اُنہوں نے مصر کے اسواں ڈیم اور دُنیا کے بڑے پانچ ڈیموں جِس میں پاکستان کا منگلاڈیم،افریقہ کے دو بڑے ڈیم والٹا اور کاریبا اور امریکہ کے میڈ اور پوویل ڈیم شامل تھے، ریسرچ اور تحقیق جاری رکھی اور اِن کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بڑے ڈیموں کے نُقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں ۔ بڑے اور اونچے ڈیموں کے نُقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ نے سال 1950 میں اپنے ملک میں اس قسم کے ڈیم اور بند بنانا چھوڑ دئے ۔ امریکہ میں جو بڑے ڈیمز تھے وہ اُنہوں نے توڑنا شروع کر دیئے، توڑنے والے ڈیمز میں امریکہ کے ;66;uttle;67;reek اور ;87;ashington ;69;twhaشامل ہیں ۔ اور اسی طرح امریکہ میں بڑے ڈیموں کے ماہرین نے 710 فٹ اونچے گلن گیان ;71;ien;67;anyon ;68;ame اور پاول ;80;owel ;76;ack کو ختم کرانے کی سفارش کی ۔ عالمی سطح پر بڑے سائنسدان اور ڈیمز کے ماہرین اونچے ڈیموں کو اٹیم بم سے بھی زیادہ خطر ناک سمجھتے ہیں ۔ اونچے ڈیم ہر سال لاکھوں ٹن سیلابی مٹی اور ریت کا گارا ;83;iltروکتے ہےں اور جھیل کئی سالوں میں بھر جاتی ہے تربیلا ڈیم کا گارا بجلی گھر سے صرف کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، جِس سے ;80;ower ;72;ouse کو خطر ہ ہو سکتا ہے ۔ عا م حالت میں دریا کا پانی جو اپنے ساتھ کھاد یعنی;70;ertilizer لاتا ہے اور جو زمین کو زرخیز بناتا ہے ، ڈیم کے بننے سے یہ عمل قدرتی طور پر رُک جاتا ہے ۔ محققین کی تحقیق کے مطابق مصر کے اسواں ڈیم کی کھاد کی قیمت 2100میگاواٹ بجلی کی قیمت کے برابر ہے علاوہ ازیں ڈیم بننے سے مچھلیوں کی تعداد حد سے زیادہ کم ہو جاتی ہے ۔ اسواں ڈیم سے مچھیرے سال میں اٹھارہ ہزار ٹن مچھلی حاصل کر تے تھے اور ڈیم بننے کے بعد اسکی پیداوار کم ہوکر پانچ ہزار ٹن ہو گئی ہے ۔ اونچے ڈیموں کی وجہ سے سالانہ 15 فیصد پانی بخارات بَن کر ضائع ہو جاتا ہے اور کالا باغ ڈیم کا 15 فیصد پانی کا ضائع ہونا ایک چھوٹے صوبے کے پانی کے حصے کے برابر ہے ۔ سیم اورتھور بھی بڑے ڈیموں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک سیم و تھور کو قابو کرنے کےلئے اربوں ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں ۔ تربیلہ کے بننے سے پہلے مردان اور صوابی کے وونوں اضلاع کو سیراب کرنے کےلئے ایک بڑا بند پیہور رواں دواں تھا ۔ مگرڈیم بننے کے بعد وہ تقریبا خشک ہو گےا ہے اور اسی طرح صوبہ سرحد کے دو اہم اضلاع سیم اور تھور کا سختی سے شکار تھے ۔ حکومتی اعداد شمار کے مطابق 100 دیہاتوں کا اور لاکھوں ایکڑ زمین کا ڈوبنا اسکے علاوہ ہے ۔ اونچے ڈیمز انسانی زندگی کےلئے ایک مستقل خطرے کا باعث ہو تا ہے ۔ سال 1982 اور1997کے دوران امریکی کور آف انجینئرزنے امریکہ میں بنے ہوئے بڑے ڈیموں کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ ان ڈیموں میں 45 فیصد غیر محفوظ ہیں ۔ 1976 میں امریکہ کی جنوبی ریاست idaho مین ٹییٹون ڈیم ٹوٹ گیا جس سے زندگی اور اِملاک کو شدید نقصان پہنچا ۔ 1975 میں چین کے صوبہ ہینان میں نہکاہوں اور شیمانٹس ڈیموں کے ٹوٹنے کی وجہ سے تقریباً 3 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ 1963 میں اٹلی میں ایپلس میں تعمیر شدہ ویو نٹ ڈیم کے ٹوٹنے کی وجہ سے 3ہزار لوگ مر گئے اور1979 میں ہندوستان میں مکچو ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے 2 ہزار لوگ جاں بحق ہو گئے ۔ سال 1974 میں تربیلہ ڈیم اس وقت ٹوٹنے کے قریب تھا ، جب ڈیم کی چار میں سے دو سُرنگیں بُری طرح متا ثر اور تباہ ہو گیں ۔ اس ڈیم کو ٹوٹنے سے بچانے کےلئے اسکی مرمت پر اتنی بھاری رقم لگی کہ ڈ یم کا کُل خرچ دوگُنے سے بھی زیادہ ہو گیا ۔ 1968 میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ تربیلہ ڈیم کے منصوبے پر آٹھ سو ملین ڈالر خرچ ہونگے مگر ہوتے ہوتے یہ رقم 2000 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ۔ ڈیم کے ناکام ہونے کی صورت میں لوگوں کو بچانا بُہت مشکل ہوتا ہے اور اسی طرح جنگ کے دوران بھی ڈیم دُشمن کےلئے ایک بہت بڑا ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri